• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ کاروبار سے خریدے ہوئے پلاٹ میں میراث کاحکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

السلام علیکم!

ہم دو بھائی اور پانچ بہنیں ہیں ۔ہمارے والد محترم یکم نومبر2017 کو وفات پا گئے ۔ ہم دونوںبھائیوں نے چھوٹی عمر میں والد صاحب کے کاروبار پر آنا شروع کرد یا۔ میں دوران تعلیم کاروبار پر آنا شروع ہوا ۔پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد مکمل طور پر کاروبار پر آگیا ۔تعلیم 1999میںمکمل ہوئی۔ چھوٹا بھائی میٹرک کے بعد کاروبار پر آنا شروع ہوا۔ پھر ایف۔اے کے بعد مکمل طور پر کاروبار پر آگیا۔ اس دوران والد صاحب نے ایک اور جگہ دکان کرائے پر لی اور وہاں چھوٹے بھائی کو بٹھایا اس نے اس نئی جگہ پر کاروبار پر خوب محنت کی اور کاروبار کو خوب ترقی دی۔ جبکہ میں والد صاحب کے ساتھ پرانی دکان پر جاتارہا ۔ تاہم کاروبار والد صاحب کی زیر نگرانی مشترکہ  ہی رہا۔ 2005 میں والد صاحب نے مجھے چائنہ بھیجا اوریوں ہماری امپورٹ شروع ہوئی او ر میں امپورٹ کے سسٹم کو دیکھتا رہا جبکہ بھائی سیل اور منیوفیکچرنگ کو دیکھتا رہا۔ والد صاحب مرض الوفات تک کاروبار پرآتے رہے ۔ یہ کہناہرگز غلط نہ ہوگا کہ بھائی نے کاروبار کے لیے دن رات محنت کی۔ اس نے خون پسینہ ایک کیا اور سخت محنت کی اور ابھی تک کر رہا ہے۔ اس کی عمر تقریباً39سال اور میری42سال ہے۔ سیل، منیو فیکچرنگ ، لین دین سب کو وہی دیکھتا ہے جبکہ میں صرف امپورٹ کو دیکھتا ہوں ۔ اس سارے عرصے میں میری محنت بھائی کی نسبت بہت کم رہی اور کاروبار پر ہولڈ بھی اسی کا ہے۔

والد صاحب نے زندگی میں کچھ جائیداد بھی اپنے، والدہ ، میرے ، بھائی اور کچھ  بھائی اور میرے مشترکہ نام سے خرید یں اس میں ان کا مقصد یہ تھا کہ ان کی بعد ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو اور بہنوئیوں کی طرف سے کوئی پرابلم نہ ہو۔ تاہم انہوں نے کبھی صراحتاً رجسٹریاں ہمارے حوالے کرکے ہمیں یہ نہیں کہا کہ آج سے تم اس کے مالک ہو۔ تاہم ان کا مقصد یہی تھا کہ ان کی وفات کے بعد ہم کسی قسم کی پریشانی بہنوئیوں کی طرف سے نہ دیکھیں اور یہ رجسٹریاں ہمارے نام کرنے کا مقصد ٹیکس معاملات نہ تھے بلکہ مندرجہ بالا ذکر کی گئی وجہ تھی اور حوالے نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ میری بیوی سے خائف تھے کہ کہیں وہ ملکیت حاصل ہونے پر مجھ پر دبائو ڈال کر بھائیوں کو الگ نہ کرالے۔ والد صاحب کوچھوٹے بھائی کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اورا س پر بہت اعتماد کرتے تھے ۔وفات سے پہلے انہوں نے اکثر بینک اکائونٹ کاSignatory بھائی کو اور مجھے بنا دیا تھا یعنی وہ یہی سمجھتے تھے کہ میرے بعد میرے بیٹے ہی کاروبار کے مالک ہونگے اور وہ کہتے بھی تھے کہ سب تمہارا ہی ہے میرا کیاہے کہ کب بلاوا آ جائے۔

(1)          ایک پلاٹ بہت پہلے والد صاحب نے والدہ کے نام سے خریدا 1999 میں اس پرگھر بنوایا اور اس میںہم رہتے ہیں۔ اس مکان کے بارے میں والدہ یہ کہتی کہ یہ تو میری بیٹوں کا ہے معنوی طور پر یہ وہ یوں کہتی کہ چونکہ باقی سب بیٹوں کا ہوگا لہذا یہ تو میری بیٹیوں کا ہے۔والد صاحب اس پر رضامند ی کی خاموشی اختیارکرتے۔

(2)          ایک پلاٹ والد صاحب نے خریدا 27مرلے اوراس کی دو رجسٹریاں کرائی ۔10 مرلہ کی والد ہ کے نام سے اور 17مرلہ کی والد صاحب کے نام سے۔ 10مرلہ والی جگہ پر وفات سے ایک سال قبل میرے لیے گھر بنوانا شروع کیا جس کی ا بھی Finishing ہونا باقی ہے Grey Structure یعنی سیمنٹ کاکام سب ہو چکا ہے بقیہ17مرلہ خالی پلاٹ ہے۔ جس کے بارے میں والد صاحب یہ چاہتے تھے کہ اس پر بھائی کے لیے گھر تعمیر ہو اور وہ اس پر اصراربھی کررہے تھے کہ اس پر اپناگھر بنوالے۔ والدہ یہ کہتی ہیں کہ اس 17مرلہ والے پلاٹ کے متعلق ان کے پاس والد صاحب کی کوئی تحریر بھائی کے حق میں ہبہ کے متعلق ہے۔ تاہم یہ تحریر ابھی بھائی اور میں نے نہیںدیکھی۔ تاہم یہ طے ہے کہ والد صاحب اس پر بھائی ہی کے لیے گھربنوانا چاہتے تھے۔

(3)          وفات سے دو تین سال قبل والد صاحب نے ایک پلاٹ دونوں بھائیوں کے لیے فیکٹری بنوانے کے لیے خریدا اور اس کی رجسٹری دونوں بھائیوں کے نام پر کروائی اور اصرار کررہے تھے کہ ا س پرفیکٹری بنوالی جائے۔

(4)          ایک اورپلاٹ فیکٹری کا خریدا اور اس کی رجسٹری میں ٹیکس کے وجہ سے تاخیر کی کیونکہ گذشتہ پلاٹ دو بھائیوں کے نام پر خریدا تھا اب اس کودو سال مکمل ہونے پر وہ بھائی سے کہہ رہے تھے کہ اس کی دونوں بھائیوں کے نام سے رجسٹری کروا لی جائے۔ تاہم والد صاحب کی وفات سے پہلے رجسٹری نہ ہوسکی۔

(5)          کافی پہلے ایک دکان والد صاحب نے اپنے نام سے خریدی جس پر میں اور والدصاحب بیٹھتے تھے ۔

(6)          دوگودام میرے اور ایک بھائی کے نام سے خریدے۔

(7)          ایک دکان بھائی کے نام سے خریدی ،ایک میرے اورایک اپنے نام سے ۔

یوںکہہ سکتے ہیں کہ (1) اور(5) والد صاحب نے شروع کے دورمیں خریدیں اس وقت والد صاحب کا کاروبار زیادہ نہ تھا ۔ کاروبار کو بنیاد ی ترقی بھائیوں کے آنے کے بعد ہوئی اور اکثر بقایا جائیداد بعدمیں ہی خریدی گئی۔

اب والد صاحب کی وفات کو آٹھ ماہ گذر چکے ہیں ۔ کاروبار ویسے ہی چل رہا ہے۔ میں جیسے پہلے کاروبار سے خرچہ لیتا تھا ویسے ہی لیتا ہوں ۔ اب میں نے کاروبار کا سربراہ بھائی کو بنایا ہوا ہے ۔ا بھی تک کسی بہن نے وراثت کامطالبہ نہیں کیا۔

بھائی کی یہ رائے ہے کہ ہم (1)یعنی جس گھر میںہم رہ رہے ہیں بہنوں کووالد صاحب کے ارادہ یا وصیت کے مطابق دے دیں اور کچھ مزید بھی دے دیں۔ نیز نمبر(2) یعنی27مرلے والے پلاٹ پر دونوں بھائی اپنے گھر مکمل کریںاور کاروبار دونوں بھائیوں کا ہو جیسے کہ والد صاحب کی منشاء اور ارادہ تھا۔ نیز نمبر(4) کی دونوں بھائی اپنے نام پررجسٹر کروائیں ۔

و الدہ  یہ کہتی ہیںکہ نمبر(2) کا دس مرلہ پلاٹ چونکہ ان کے نام پر رجسٹری ہے لہذا اس پر جو گھر بنے گا اس کا ایک پورشن میرے اور ایک پورشن والد ہ کے زیر استعمال رہے گا کہ پھر وہ بعدمیں جسے بہترسمجھیں گی اس کو وہ گھر دے دے گی۔ اب اس سلسلے میںمفصل نمبروار رہنمائی فرمائیں کہ میرے لیے شریعت کاکیاحکم ہے۔

نیز اگر بھائی کی رائے پر بہنوں کی رضامندی سے عمل ہوجائے تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے۔سب بہنیں ،والدہ اورمیںاس بات کوسمجھتے ہیں کہ والد صاحب کی منشاء اور ارادہ بھائی والی رائے پر عمل کرنے کا تھا۔تاہم مختلف وجوہات کی وجہ سے انہوںنے صراحتاً یہ چیزیں اپنی زندگی میں ہبہ نہ کیں ۔

نیز بھائی یہ کہتا ہے کہ اگر مفتی صاحب سب چیزوں کو ترکے میں شامل کریں تووہ اس پرعمل کرنے کو تیار نہیں۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اگرایسا ہے تو ہم دوبھائی آپس میںتقسیم کرلیتے ہیںتم اپنے حصے میںسے تمہارے مطابق جو بہنوں کا حصہ بنتا ہے وہ دے دینا اور میں اپنے حصہ میں سے اپنی سمجھ اور والد صاحب کی وصیت کے مطابق بہنوں کو جو دینا ہوگا دے دونگا۔ مجھے کاروبار کا زیادہ تجربہ نہیں چونکہ میںصرف امپورٹ کو دیکھتا رہا ہوں ۔لہذا اس سلسلہ میں آپ کا کیا مشورہ ہے آیا کہ اس بنیاد پر کہ اگر بھائی تمام چیزوںکو ترکے میں شامل کرنے پر رضامند نہ ہو ںتو میں بھائی سے علیحدہ ہو جائو ں کہ دونوں اپنے اپنے حصہ میں سے اپنی سمجھ کے مطابق بہنوں اور والدہ کو حصہ دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کاروبار اور جو پلاٹ مشترکہ کا روبار سے خریدے گئے ہیں وہ سب وراثت میں ہیں اور ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہو ں گے کیونکہ محض نام کروانے سے وہ دوسروں کی ملکیت میں نہیں آئے ۔البتہ بھائیوں نے چونکہ محنت کرکے کاروبار کو بڑھایا ہے اس لیے مارکیٹ رواج کے مطابق دونوں بھائیوں کو ان کی محنت کا محنتانہ علیحدہ سے دیا جائے گا۔

اگر آپ کا بھائی اس پر عمل کرنے کو تیار نہ ہو تو آپ اپنی حد تک عمل کرلیں ۔

نوٹ:         اگر کسی جائداد کے بارے میں ہبہ (ہدیہ)ہونے کا ثبوت ہوتو وہ فراہم کرکے اس کا جواب معلوم کیا جاسکتا ہے۔

في الشامية(321/7)

قيد بالبيع لانه لو اشتري لغيره نفذ عليه۔۔۔

 قوله نفذ عليه اي علي المشتري ولو اشهد انه يشتريه لفلان وقال فلان رضيت فالعقد للمشتري لانه اذا لم يکن وکيلا بالشراء وقع الملک له فلااعتبار بالاجازة بعذ ذلک لانها انما تلحق الموقوف لا النافذ

چنانچہ امدادالفتاوی (38/3) میں ہے:

’’کسی کے نام سے جائداد خریدنے کے بارہ میں میں، نے بہت دفعہ غور کیا اور غالبا ایک دوبار لکھا بھی ہے ۔ ہبہ تو یہ کسی طرح ہو نہیں سکتا ،کیونکہ ہبہ تو ہوتا ہے بعد ملک کے اور یہاں پہلے سے ملک نہیں اس اشتراء ہی سے خود مالک  ہوا ہے اور بعد اشتراء کوئی عقد پایا نہیں گیا البتہ اگر بعد اشترا ء کے کوئی تصرف مو جب تملیک پایا جاوے تو بیشک ملک اس کی ہو جاتی ،واذلیس فلیس ،اس لیے یہ فعل مہمل ہے ۔اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ یہ اشتراء فضولی ہے تو اس مشتری لہ کی اجازت کے بعد اس کی ملک ہو جانا چاہیے ،جواب یہ ہے کہ بیع للغیر میں تو اجازت غیر سے اس غیرپر نفاذہوتا ہے مگر شراء للغیر میں خود مشتری پر نفاذ ہوتا ہے ۔کذا فی الدد المختار ۔پس اس غیر کی تملیک کے لیے عقد جدید کی حاجت ہو گی‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved