• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بعض ورثاء کا اپنے حصہ سے دستبردار ہونے کاحکم

استفتاء

چند سوالات کا جواب قرآن اور حدیث کی روشنی میں مطلوب ہے :

۱۔ میرے والد صاحب وفات پا چکے ہیں ۔ورثاء میں ایک اہلیہ ،ایک بیٹی ،پانچ بیٹے ہیں،سائل بڑے سے چھوٹا بیٹا ہے ۔میری والدہ کو والد صاحب نے طلاق دی تھی ۔والداور والدہ نے مل کرمکان بنایا جس میں والد کا 75%مال خرچ ہوا جبکہ والدہ نے 25% تقریبا (سونے کے زیور کی صورت میں) خرچ کیا ۔والد صاحب نے بیٹی کو کسی وجہ سے عاق کردیا ۔کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کرلی تھی جس پر والد صاحب راضی نہ تھے۔والد صاحب نے اپنی زندگی میں مجھ سے تین چھوٹے بھائیوں کو چار چار مرلے کا پلاٹ دیااور قبضہ بھی دیدیا ۔مجھے اور بڑے بھائی کو ایک پانچ مرلے کا مکان دیا۔یہ وہی مکان ہے جو والد والدہ کا مشترکہ تھا ۔ اور اس کا انتقال بھی زندگی میں نہیں ہوا تھا بلکہ والد صاحب کی وفات کے بعد حکومتی قانون میں وراثتی انتقال میں دونوں بھائیوں نے تقسیم کیا ۔جس کی صورت یہ تھی کہ پہلے تو وراثتی انتقال میں وہ مکان سب ورثاء کے نام منتقل ہوا پھر بھائیوں نے چونکہ بصورت پلاٹ اپنا حصہ لے لیا تھا اس لیے بخوشی ہمارے حق میں بیان دیدیے اور والدہ کا انتقال میں نام ہی نہیں آیا تھا جبکہ ہمشیرہ کا اگرچہ نام آیا تھا مگر اس نے بھی بیان دیدیا۔

۱۔ درخواست یہ ہے کہ والدہ صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ کو کتنا حصہ دیا جائے گا؟والدہ کا مطالبہ نہیں ہے البتہ ہمشیر ہ نے انتقال تو کروادیا انہوں نے خوش دلی سے معاف کیا ہے یانہیں یہ معلوم نہیں۔

۲۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا میرے مرنے کے بعد سہیل ،امین اس مکان کو دونوں تقسیم کرلیناجس میں رہائش تھی جس کی رجسٹری والدہ صاحبہ کے نام تھی ۔اس مکان کے آدھے حصے میںوالدصاحب کی رہائش تھی جبکہ آدھے میں بھائی رہائش پذیر تھا۔پلاٹ کا سائز 25×45(12.5×45 /           12.5×45)

وضاحت مطلوب ہے :

اس رہائشی مکان کی بابت والد صاحب نے تحریر میں یا زبانی کیا کہا تھا ؟وہ نقل کریں

جواب وضاحت:

تحریری طور پر والد صاحب ؒ نے تو کچھ نہیں کہا تھا البتہ زبانی یہ کہا تھا ’’جس حصے میں تمہارا بڑا بھائی رہ رہا ہے وہ اس کو دے دینا اور جس حصے میں میں رہ رہا ہوں وہ تم (امین یوسف)رکھ لینا‘‘

وضاحت مطلوب ہے:

تین بھائیوں اور بہن نے اپنا حصہ آپ کو دینے کے لیے جس تحریر یا بیان پر دستخط کیے وہ بیان یا تحریر ہبہ کی تھی یا دستبرداری کی تھی ؟

جواب وضاحت :

وہ تحریر دستبرداری کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

وراثت کا تعلق انسان کے مرنے کے بعد سے ہے زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جائے اس کی حیثیت ہبہ اور گفٹ کی ہوتی ہے ۔ ہبہ تب مکمل ہوتا ہے جب متعلقہ آدمی کو اس پر عملا قبضہ بھی دیدیا جائے ۔نیز عاق کرنے سے کوئی وارث شرعا وراثت سے محروم نہیں ہوتا۔ اس تمہید کی روشنی میں آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے کہ:

۱۔ والدہ مکان کے پچیس فیصد حصے کی مالک ہیں کیونکہ یہ ان کی اپنی ملکیت ہے اس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کے علاوہ وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں کیونکہ وہ طلاق یافتہ ہیں۔

۲۔ آپ کو جو مکان دیا گیا اس کے بارے میں سوال میں ذکرکردہ معلومات کے مطابق کوئی ایسی بات نہیں جسے زندگی میں ہبہ قرار دیا جا سکے مرنے کے بعد سے متعلق ہدایت ہے جسے ان کی وصیت یا خواہش قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس لیے اس مکان کا 75%حصہ بدستور والد صاحب کی ملکیت رہا اور ان کے مرنے کے بعد وراثت بنا۔ جس میں پانچوں بیٹے اور بیٹی شریک ہوئے ۔ اس کے بعدتین بھائی اور بہن آپ کے حق میں اپنے حصے سے تحریرا دستبردار ہوگئے ۔یہ دستبرداری شرعا معتبر نہیں ہے لہذا مکان میں ان کا حصہ بدستور باقی ہے ۔بہن کا اس مکان میں گیارہواں حصہ بنتا ہے ۔بہن اپنا حصہ لینا چاہے تو لے سکتی ہے اور اگر بہن بھائی اپنی دلی رضامندی سے اپنا حصہ آپ کو دینا چاہتے ہیں تو وہ زبان سے یہ کہہ دیں کہ ہم نے اس مکان میں اپنا حصہ آپ کو ہدیہ کیا ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved