• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کےنام کیے ہوئے پلاٹ میں میراث کاحکم

استفتاء

ایک پلاٹ جو شوہر نے خریدا لیکن وہ بیوی کے نام پر ہے۔ شوہر کی وفات ہو گئی ہو تو پلاٹ وراثت میں آئے گا یا بیوی کا ہے؟ اور شوہر کا بزنس تھا جو انہوں نے بیٹوں کے نام پہ کروایا، کیا وہ بھی وراثت ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:

بیوی کے نام پر کس وجہ سے کروایا تھا ساری تفصیل ذکر کریں؟ کیا کوئی زبانی بھی بات ہوئی تھی؟ کیا بیوہ زندہ ہے؟ اور بیٹوں کے نام کس وجہ سے کروایا تھا ساری تفصیل ذکر کریں؟

جواب وضاحت:

انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی چیز بھی اپنے نام پر نہیں کروائی، کوئی بات نہیں کی۔ گاڑی، گھر، پلاٹ اپنی خوشی سے بیوی کے نام پر کرواتے تھے کیونکہ وہ خود کویت میں جاب کرتے تھے۔ جب فارغ ہو کر گھر آئے تو گذر اوقات مشکل ہو گئی، بیٹوں کی تنخواہ تھوڑی تھی، گھر بیچ کر بیس فیصد حالات کی بہتری اور بیٹوں کی خاطر اپنے کزن کے بزنس میں حصہ ڈالا۔

اور ان کی بیوی ابھی زندہ ہے ماشاء اللہ۔ انہی کا کہنا ہے کہ میرے شوہر نے یہ کاروبار میرے بیٹوں کی بہتری کے لیے کیادس دس فیصد کے حساب سے۔

میں ان کی بہو ہوں ہمیں اس مسئلے کو حل کروانا ہے کہ ان سب (پلاٹ اور نزنس) میں وراثت تو نہیں جاری ہو گی؟

مزید وضاحت مطلوب ہے:

اس بارے میں مرحوم کی بیوی اور بیٹوں کا مؤقف کیا ہے اور ان معاملات سے متعلق کوئی تحریری ثبوت ہے؟

جواب وضاحت :

مرحوم کویت میں نوکری کرتے تھے، ریٹائر ہو کر پاکستان آئے۔ چار بچے ہیں دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ ان سب کی شادی کی، حالات تھوڑے مشکل ہو گئے۔ بچے دبئی میں نوکری کرتے تھے۔ بچوں سے فارغ ہو کر امریکہ کا ویزہ لگوایا اور بیوی کو چھوڑ کر امریکہ گئے، سات سال وہاں پر جو کمائی کی اس کا ایک گھر بنوایا اور واپس آگئے۔

پاکستان آکر کزن نے بزنس میں پارٹرشینگ کی آفر کی تو گھر بیچ کر دبئی میں بیس فیصد حصہ ڈالا، اسی میں سے جو سالانہ پرافٹ ملا اس سے ایک دس مرلے کا پلاٹ لیا۔

اب جبکہ وہ دنیا سے جا چکے ہیں ابھی تک وراثت کی تقسیم نہیں ہوئی کیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وراثت نہیں کیونکہ پلاٹ مرحوم کی بیوہ کے نام پر ہے اور بزنس بیٹوں کے نام پر ہے۔ اور مرحوم کی بیوہ کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ ان کی بات ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ میرے دونوں بیٹوں کے دس دس فیصد کے حساب سے ہے۔ یہ سب ان کے کہنے پر ہی لکھا جا رہا ہے، اور اگر دار الافتاء والے کہیں گے تو بات کروا دیں گے۔ لیکن ہمیں شریعت کے مطابق اس کا فتویٰ لینا ہے۔

اب ہمیں پلاٹ سیل کرنا پڑ رہا ہے تو یہ بھی کنفرم کرنا ہے کہ اس پلاٹ میں بیٹیوں کا حصہ بنتا ہے؟

کچھ اور معلومات چاہیے ہوں تو آپ پوچھ لیں۔ باقی مرحوم نے کوئی تحریری چیز ہمارے پاس نہیں چھوڑی نہ ہی انہوں نے اس بارے میں بیوی کے علاوہ کسی اور سے بات کی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہرنے پلاٹ بیوی کے نام کس وجہ سے کیا تھا یا بزنس اپنے بیٹوں کے نام کس وجہ سے کیا تھا ؟اس کی کچھ وضاحت نہیں اور محض نام کرنے سے کوئی چیز دوسرے کی ملکیت میں نہیں آتی لہذا یہ پلاٹ اور بزنس وراثت میں شمار ہوں گے اور ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوں گے۔لما في الشامية(321/7)

قيد بالبيع لانه لو اشتري لغيره نفذ عليه۔۔۔

 قوله نفذ عليه اي علي المشتري ولو اشهد انه يشتريه لفلان وقال فلان رضيت فالعقد للمشتري لانه اذا لم يکن وکيلا بالشراء وقع الملک له فلااعتبار بالاجازة بعد ذلک لانها انما تلحق الموقوف لا النافذ۔۔

امدادالفتاوی (38/3) میں ہے:

’’کسی کے نام سے جائداد خریدنے کے بارہ میں، میں نے بہت دفعہ غور کیا اور غالبا ایک دوبار لکھا بھی ہے ۔ ہبہ تو یہ کسی طرح ہو نہیں سکتا ،کیونکہ ہبہ تو ہوتا ہے بعد ملک کے اور یہاں پہلے سے ملک نہیں اس اشتراء ہی سے خود مالک  ہوا ہے اور بعد اشتراء کوئی عقد پایا نہیں گیا البتہ اگر بعد اشترا ء کے کوئی تصرف مو جب تملیک پایا جاوے تو بیشک ملک اس کی ہو جاتی ،واذلیس فلیس ،اس لیے یہ فعل مہمل ہے ۔اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ یہ اشتراء فضولی ہے تو اس مشتری لہ کی اجازت کے بعد اس کی ملک ہو جانا چاہیے ،جواب یہ ہے کہ بیع للغیر میں تو اجازت غیر سے اس غیرپر نفاذہوتا ہے مگر شراء للغیر میں خود مشتری پر نفاذ ہوتا ہے ۔کذا فی الدد المختار ۔پس اس غیر کی تملیک کے لیے عقد جدید کی حاجت ہو گی‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved