• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

معاہدہ پر دستخط کے بعد استحقاق کا دعوی

استفتاء

سوال برائے وراثت نمبر ۱:

السلام علیکم مفتی صاحبان وراثت کے ایک مسئلے کا حل پوچھنا چاہ رہا ہوں جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

وارثان آٹھ بہن بھائی تھ جن میں میرے والد صاحب کے 5بھائی اور 3بہنیں تھیں جن میں میرے والد صاحب سب سے بڑے تھے ۔میرے والد صاحب دادا جان کے ساتھ مل کرکپڑے کا کاروبار کرتے تھے کاروبار میں نقصان ہوا اور ہماری فیملی مسائل کا شکار ہوگئی ور میر ے والد محترم کو علیحدہ کردیا گیا۔اور ایک غیر منصفانہ تقسیم کردی گئی ۔جائیداد کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔دوکان کرائے کی (ایک عدد)

۲۔دوکان ملکیت کی (ایک عدد)

۳۔مکان 11/2مرلے کا پرانابنا ہوا (ایک عدد)

۴۔مکان 7مرلے کا نیا بنا ہوا اور 8دوکانیں

۵۔3ایکڑ زرعی اراضی

۶۔2پلاٹ 5-5مرلے کے جن کی قسطیں ادا کرنا تھی

2فیصلے ہوئے جو ساتھ بھیج رہا ہوں پہلا فیصلہ 1980میں ہوا جس میں ہمارے کچھ رشتہ داروں نے فیصلہ کیا۔

1۔کر ائے کی دوکان

2۔مکان 11/2مرلے کا

3۔اور 2پلاٹ قسطوں والے دے دئیے

اور کہا کہ  آپ کا یہی حصہ ہے ۔باقی جائیداد دادا نے اپنے پاس رکھ لی ۔کچھ عرصے کے بعد میرے دادا جان نے 1-1/2مرلے کا مکان میرے والد صاحب کے نام کروادیا اور 17مرلے والا مکان 8دوکان سمیت میرے چچا کے نام کروادیا اورزمین کسی کے نام نہیں کروائی ۔

1991میں میرے دادا جان کا انتقال ہوگیا تو میرے والد صاحب نے چچا لوگوں سے بات کی کہ مجھے زرعی زمین میں سے حصہ دیا جائے ۔کیونکہ زمین پر میرے چچا لوگ قابض تھے ابا جان نے ان کو کہا کہ مکان میرے نام بھی ہوا جو کہ کافی کم مالیت کا ہے اور مکان  آپ کے نام بھی ہوا جو کہ زیادہ مالیت کا ہے لیکن  آپ ا پنے زمین کسی کے نام نہیں کروائی تو جس کا حصہ شرعی حق بنتا ہے وہ دیا جائے پہلے تو چچا لوگ تیار نہ تھے بعد میں چچا لوگوں نے کیا کہ ہم چاروں بھائی اپنے بھائی کا شرعی حصہ اپنی مرضی سے طے کریں گے جس کے بعد معاہدہ نمبر 2طے پایا ۔

میرے والد محترم نے کہا کہ یہ نا انصافی ہے اس کے بعد میرے والد محترم تحصیلدار کے سامنے پیش ہوئے اور دادا جان کا ڈیٹھ(Death) سرٹیفیکیٹ کے بعد درخواست دی جس کے حصہ میں جتنا زمین کا شرعی حصہ آتا تھا سب کے نام ہوگی اور سب مالک بن گئے۔اور جب میرے چچا لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے اور  آنا جانا بند ہو گیا اور پھر میری بہن کی شادی پر 1999میں چچا لوگوں نے شرکت سے انکار کیا میرے ابا جان نے  آپنے بھائیوں سے کہا کہ میں نے جو میرا شرعی حصہ بنتا تھا وہ ہی لیا ہے ۔اور بڑے ہونے کے ناطے جو میرا فرض تھا وہ میں نے پورا کیا تم نے شادی پر آنا ہے تو آؤ، اگر نہیں آنا تو تمہاری مرضی ہے پھر چچا لوگ شادی پر آگئے اس کے بعد حالات ٹھیک ہوگئے اور میل جول شروع ہو گیا اس کے بعد میرے والد صاحب کی اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔

2004میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا اب 2015میں وہاں ایک ٹاؤن (ہاؤسنگ سکیم )شروع ہوئی زرعی زمین 2حصوں میں واقع تھی ایک حصہ سڑک (یعنی مین روڈ )سے دور اور ایک مین روڈ سے قریب ۔مین روڈ سے دور والا حصہ ٹاؤن کے اندر آگیا اور جو مین روڈ سے قریب تھا وہ ٹاؤن کے اندرنہ آیا ۔چچا لوگوں نے کہا کہ تمہیں 1994کے معاہدے کے تحت پیچھے والی زمین میں سے ہی حصہ ملے گا  آگے والی زمین میں تمہارا حصہ نہیں ہے ۔میں نے چچا لوگوں سے کہا کہ  آپ سب میرے والد محترم کے برابر ہیں اور ان کو حدیث مبارکہ سنائی کہ مومن وہ ہو تا ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ہمارے والد محترم فوت ہو چکے ہیں ۔ہم دونوں بھائی  آپ سے لڑنا نہیں چاہتے ۔نہ ہی کسی مقدمے بازی میں جانا چاہتے ہیں۔برائے مہربانی ہمیں  آپنا برخوردار سمجھتے ہوئے جو حصہ ہمارے نام ہے وہی دیا جائے ۔لیکن وہ اس پر کسی طرح سے بھی تیار نہیں ہے۔

چچا لوگ کہتے ہیں کہ جو تمہارے 60مرلے تھے وہ پیچھے والی زمین میں تھے اس حساب سے رقم لے لو جبکہ مفتی صاحب ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک 1-1/2مرلہ کا مکان ہے اور ایک بھائی اور 2بہنیں کرایہ کے مکان میں رہتی ہیں اور باہر مارکیٹ میں زمین مہنگی ہے ۔یہ زمین چچا لوگوں نے فروخت کی ہے ۔135000فی مرلہ کے حساب سے ہے ۔اور مین روڈ کے قریب والی زمین 4سے 5لاکھ روپے پر مرلہ کے حساب سے ہے ۔

مفتی صاحبان یہ جو کہنا ہے کہ ہم اپنے بھائی کا شرعی حصہ اپنی مرضی سے مقرر کریں گے؟ اس کی شرعی حیثیت بتا دیں؟اور جو حالات تھے میں نے وہ مفصل لکھ دئیے ہیں اور ساتھ میں جو معاہدے ہوئے وہ بھی بھیج رہا ہوں ۔برائے مہربانی میں نے بڑی مشکل سے اپنے چچا لوگوں کو فتوی پر تیار کیا ہے ۔برائے مہربانی فتوی دے دیں۔

وضاحت مطلوب ہے :

کہ معاہدہ نمبر 2میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’’حاجی عاشق علی کا حصہ دوسرے چار بھائی اپنی مرضی سے مختص کریں گے‘‘اور اس معاہدہ پر حاجی عاشق علی کے دستخط بھی ہیںاور  آپ نے اپنے سوال میں معاہدہ نمبر 2سے متعلق لکھا ہے کہ ’’میرے والد محترم نے کہا کہ یہ ناانصافی ہے ‘‘ایک طرف معاہدہ نمبر 2پر دستخط کرنا اور دوسری طرف اس معاہدے کے بارے میں کہنا کہ یہ ناانصافی ہے ان دونوں باتوں میں تضاد ہے اس تضاد کے بارے میں  آپ کا کیا مؤقف ہے ؟

جواب وضاحت:

معاہدہ نمبر 2اس لیے ہوا کہ میرے چچائوں نے کہا کہ ہم حاجی عاشق علی کو حصہ دیں گے تو اپنی مرضی کے دیں گے نہیں تو حصہ نہیں دیں گے پھر معاہدے میں مجبور کر کے یہ بات لکھی گئی کہ چاروں بھائی اپنے بڑے بھائی کا شرعی حصہ اپنی مرضی سے مقرر کریں گے۔میں مفتیان کرام سے یہی پوچھنا چاہ رہا ہوں اسلامی رو سے اس کو بتا دیں کہ بھائی کو مجبور کر کے اس کا شرعی حصہ اپنی مرضی سے مقرر کرنا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

مزید وضاحت مطلوب ہے

کہ معاہدہ نمبر 2میں تحریر ہے کہ ’’لہذا معاہدہ تقسیم زرعی اراضی برضامندی سندا تحریر ہے ‘‘جبکہ  آپ لکھ رہے ہیں کہ مجبور کر کے یہ بات لکھی گئی ۔مجبور کرنے سے  آپکی کیا مراد ہے کیا کوئی دھمکی دی تھی یا مارا پیٹا تھا یا کس قسم کی مجبوری مراد ہے ؟

جواب وضاحت

نہ مارا تھا نہ پیٹا تھا بلکہ دھمکی دی تھی کہ اگر حصہ دیں گے تو اپنی مرضی سے دیں گے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

معاہدہ نمبر 2میں یہ تحریر موجود ہے کہ ’’حاجی عاشق علی کا حصہ دوسرے چار بھائی اپنی مرضی سے مختص کریں گے ‘‘نیز اسی معاہدے کے  آخر میں ہے کہ ’’لہذا معاہدہ تقسیم زرعی اراضی برضامندی سندا تحریر ہے ‘‘اور اس معاہدہ پر  آپ کے والد صاحب کے دستخط بھی موجودہیں اور دستخط کرنے میں  آپ کے والد صاحب پر کو ئی زبردستی نہ تھی جو شرعا قابل اعتبار ہو لہذا اس معاہدہ کی پابندی کی جائے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved