• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

آپ ﷺ کی قبر مبارک کے پتھر سے حصول شفاء    

استفتاء

اگر کسی کے پاس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا پتھر ہو تو کیا مرض کی شفا کے لیے اس کو پانی میں ڈال کر پانی پینا صحیح ہے؟

وضاحت مطلوب: نبی ﷺ کی قبر کے پتھر سے کیا مراد ہے ؟اور یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ نبی ﷺ کی قبر کا پتھر ہے؟نیز جس شخص کے پاس یہ ہے اس کے پاس کیسے آیا ؟

جواب:ہمیں بھی پورا  یقین  تو نہیں کہ یہ نبی ﷺ کی قبر مبارک کا پتھر ہے ۔یہ میری پھو پھو  کو ان کی ساس نے دیا ہے کہ یہ بہت سالوں پہلے ہمارے دادا لی کر آئے ہیں ۔اگر سچ میں یہ ان کی قبر مبارک کا پتھر ہو تو کیا ایسا کرسکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر یہ پتھر واقعۃً نبی ﷺکی قبر مبارک کا ہو تو مرض سے شفاء کے لئے اس کو پانی میں ڈال کر اس پانی کو پینا صحیح ہے۔تاہم یہ پتھر نبی ﷺ کی قبر مبارک کا ہی ہو یہ بات محل نظر ہے کیونکہ تاریخی صراحت کے مطابق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانے کے بعد کوئی آدمی نبی ﷺ کی  اصل قبر مبارک تک نہیں پہنچا،اس لیے جب تک اس پتھر کا نبی ﷺ کی قبر کا ہونا کسی معتبر ذریعہ سے ثابت نہ ہو  اس وقت تک احتیاط کی جائے۔

صحیح بخاری(2/875) میں ہے :حدثنا إسرائيل عن عثمان بن عبد الله بن موهب قال أرسلني أهلي إلى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم بقدح من ماء وقبض إسرائيل ثلاث أصابع من فضة فيه شعر من شعر النبي صلى الله عليه وسلم وكان إذا أصاب الإنسان عين أو شيء بعث إليها مخضبة فاطلعت في الجلجل فرأيت شعرات حمرا.عثمان بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک چاندی کا پیالہ دے کر بھيجا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں ۔اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال مبارک تھے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا برتن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور حضرت ام سلمہ رسول ﷺ کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے۔وفاء الوفاء(2/305)میں ہے:ونقل الاقشهري عن الرشيد شارح المصابيح انه قال سالت جمعا من العلماء عن سبب ستر القبور عن اعين الناس اي باتخاذ جدار لا باب له. فذكر بعضهم انه لما مات الحسن بن علي رضي الله عنه اوصي ان تحمل جنازته وىحضر بها قبر النبي ﷺثم يرفع ويقبر في البقيع. فلما اراد الحسين رضي الله عنه ان يجيز وصيته ظن طائفة  انه يدفن في الحضرة،فمنعوه وقاتلوه فلما كان عبد الملك او غيره سدوا و ستروا.رسالہ مدینۃ المنورہ   ص 15 میں ہے: أمر الوليد بن عبد الملك بهدم المسجد، وتوسعته من الشرق والغرب والشمال، وإضافة الحجرات فيه، وأمر بإزالة جدران بيت عائشة وإعادة بنائها من الحجارة السود، ولم يجعل للحجرة بابًا أو شباكًا ولا يمكن الوصول على قبر النبي صلى الله عليه وسلم وصاحبيه. (تالیف :عبد المحسن بن محمد قاسم امام  وخطیب مسجد نبوی ﷺ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved