- فتوی نمبر: 23-245
- تاریخ: 02 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
میں داڑھی کے رنگنے سے متعلق ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ کی داڑھی رنگنا ضروری ہے جیسا کہ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا؟اور کسی احادیث کا حوالہ بھی دیا ہے؛ جیسا کہ ذیل میں بتایا گیا ہے برائے مہربانی مجھے حوالہ کے ساتھ رہنمائی کریں داڑھی کو خضاب کرنا حکم رسول ہے اور سفید رکھنا نافرمانی رسول ہے کیونکہ داڑھی کو سفید رکھنا یہود اور نصاری کا کام ہے لیکن ایک گمراہ فرقے نے ایک کہانی مشہور کر رکھی ہے کہ سفید داڑھی سے اللہ کو حیا آتی ہے یہ اللہ پر بہتان ہے اس سے توبہ کرو ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم:ان اليهود و النصارى لا يصبغون فخالفوهم)بخاري٥٨٩٩ مسلم٢١٠٣؛ابوداؤد٤٢٠٣؛نسائی٥٠٧٢؛ابن ماجه٣٦٢١)حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ نبیﷺنے فرمایا یہود اور نصاری رنگ نہیں کرتے ہیں تم لوگ انکی مخالفت کرو(یہود کے پوب اور نصاری کے پادریوں کی طرح سفید داڑھیاں مت رکھو)رسول اللہﷺ کو یہودیوں کے مشابہت سے سخت نفرت ہے۔آج لوگ یہود کے شکل شبہات سے بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں خصوصا داڑھیوں میں۔عن جابر رضي الله تعالي عنه قال:اتي بابي قحافةوجاء عام الفتح او يوم الفتح و راسه و لحيته مثل الثغام بياضا فقال رسول اللهﷺ غيروا هذا بشيء و اجتنبوا السواد) مسلم2102، نسائي5079، ابن ماجه3622)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ابو قحافہ کو لایا گیا اور یہ آیا فتح مکہ کا سال یا فتح مکہ کا دن تھا اور ان کا سر اور داڑھی ثغامہ کی طرح سفید تھی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ان کی سفید ذی کو کسی بھی رنگ سے تبدیل کر دو البتہ کالا کرنے سے بچو)یہ ہے رسول اللہ ﷺ کا حکم اس سے ثابت ہے کہ داڑھی رکھنا اور داڑھی رنگنا فرض ہے جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے ہیں اللہ انہیں ہدایت نصیب فرمائے)عن ابن عباس رضي الله تعالي عنه قال،قال رسول الله صلي الله عليه و سلم "يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام لا يريحون رائحة الجنة”(ابوداؤد،رقم الحديث 4214)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”آخر زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی بو تک نہ پائیں گے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
داڑھی کو خضاب کرنا اور سفید رکھنا دونوں باتوں کا اختیار ہے ، باقی رہی وہ احادیث جو سوال میں مذکور ہیں وہ تب ہیں جب خضاب نہ لگانے سے یہود ونصاری کے ساتھ مشابہت ہوتی ہواور ہمارے علاقے میں خضاب نہ لگانے سے یہود و نصاری کے ساتھ مشابہت نہیں ۔اگر ان احادیث سے ہر حال میں خضاب لگانا مراد ہوتا تو خودصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ہر حال میں خضاب لگایا کرتے حالانکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے خضاب نہ لگانا بھی ثابت ہے :
چناچہ امام محمدؒاپنی ” موطا امام محمدصفحہ 292″ میں فرماتے ہیں: قال محمد : لا نرى بالخضاب بالوسمة والحناء والصفرة بأسا وإن تركه أبيض فلا بأس بذلك كل ذلك حسن ( یعنی خضاب لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور بالوں کو سفید چھوڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں دونوں باتیں اچھی ہیں )۔موطا امام مالک (صفحہ :712) میں ہے:"عن سعيد ابن المسيب أنه قال : كان ابراهيم خلیل الرحمٰن أول الناس رأى شيبا فقال:يارب ماهذ؟ فقال الله تعالى : وقار يا ابرهيم فقال : رب زدنى وقارا "ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب ؒ کہتے ہیں کہ رحمٰن کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے شخص تھے کہ جب انہوں نے اپنی داڑھی میں سفید ی دیکھی تو پوچھا اے میرے رب یہ (سفیدی) کیا (حکمت رکھتی ) ہے؟ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : اے ابراہیم(اس میں ) وقار ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے درخواست کی (وقارحاصل ہوجائے تو آپ کی نعمت ہے لہذا) اے میرے رب میرا وقاربڑ هادیجئے( جس کی ایک ظاہری صورت یہ ہے کہ بالوں میں سفیدی بڑھ جائے)۔شرح ابن بطال (کتاب اللباس ،9/149) میں ہے:وممن كان يخضب بالصفرة ابن عمر ، والمغيرة بن شعبة ، وجرير البجلى ، وأبو هريرة ، وأنس بن مالك ، ومن التابعين عطاء ، وأبو وائل ، والحسن ، وطاوس ، وسعيد بن المسيب . …..قال أبو إسحاق الهمدانى : رايت على بن أبى طالب ابيض الرأس واللحية . وقاله الشعبى ، وكان أبى بن كعب ابيض اللحية ، وعن أنس ، ومالك بن أوس وسلمه بن الأكوع أنهم كانوا لا يغيرون الشيب ، وعن أبى الطفيل ، وأبى برزة السلمى مثله ، وكان أبو مجلز وعكرمة وعطاء وسعيد بن جبير وعطاء بن السائب لا يخضبون”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved