- فتوی نمبر: 23-246
- تاریخ: 02 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
(1)کیا حلق(ٹنڈ)کرانا حج و عمرے کے علاوہ بھی سنت ہے؟(2)اگر سنت ہے تو ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے یا کسی صحابی کی سنت ہے؟ بعض کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟ کیونکہ تبلیغی بھائیوں کو ٹنڈ کرانے پر طعن کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ خوارج کی علامت ہے برائے مہربانی دلیل سے بات واضح فرمادیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1۔2)حج اور عمرے کے علاوہ حلق کی سنیت میں شارحین حدیث کی مختلف آراء ہیں علامہ طیبی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے آپ ﷺ کے اس ارشاد ’’احلقوا کلہ أو اترکوا کلہ‘‘اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فعل’’فمن ثم عادیت راسی‘‘کے پیش نظر حلق کی سنیت کی ہے اور اس صورت میں حلق آپ ﷺ کی قولی اور تقریری سنت ہوگی نہ کہ فعلی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فعلی سنت بھی ہوگی جو کہ خلیفہ راشد ہیں اور ہمیں خلفائے راشدین کی متابعت کا امر ہے۔جبکہ ملاعلی القاری رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے حلق کی سنیت کی نہیں بلکہ صرف رخصت کی ہے کیونکہ آپ ﷺ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے حج و عمرہ کے علاوہ حلق ثابت نہیں ۔امام نووی رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ اگر بالوں کا خیال رکھنا مشکل ہو(یا اس طرح کا کوئی اور عارضہ ہوجیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تھا یا زینت کا پہلو غالب ہو جیسا کہ عموماً جوانی میں ہوتا ہے) تو حلق افضل ہےورنہ عدم حلق افضل ہے۔نیز امام طحاوی رحمہ اللہ نے حلق کی سنیت کو ہمارے ائمہ ثلاثہ کی طرف منسوب کیا ہے اور امام طحاوی رحمہ اللہ ’’اعلم بمذھب اصحابنا‘‘ہیں لہذا تبلیغ والوں کو ٹنڈ کرانے پر طعن کرنا درست نہیں کیونکہ جو حضرات حلق کی سنیت کے قائل نہیں وہ بھی اس کی رخصت (اجازت) کے بہرحال قائل ہیں اور کسی نے بھی محض خوارج کی علامت ہونے کی وجہ سے حلق کو ناجائز نہیں کہا اور نہ ہی حلق کرانے والوں پر طعن کیا۔باقی رہی یہ بات کہ حلق خوارج کی علامت ہے تو اولاًتو ہمارے زمانہ میں نہ خوارج ہیں اور نہ ہی یہ ان کی علامت ہے اور ثانیاً حلق خوارج کا شعار ہے جبکہ حلق تبلیغ والوں کا شعار نہیں اور ثالثاً بعض حضرات نے خوارج کی علامت صرف حلق راس کو قرار نہیں دیا بلکہ حلق راس کے ساتھ ساتھ حلق لحیہ اورحلق جمیع شعور کو علامت قرار دیا ہے۔
شرح النووی علی مسلم(1/342)میں ہے:قوله صلى الله عليه وسلم: "سيماهم التحالق” السيما العلامة وفيها ثلاث لغات القصر وهو الأفصح وبه جاء القرآن والمد والثالثة السيمياء بزيادة ياء مع المد لا غير، والمراد بالتحالق حلق الرؤوس، وفي الرواية الأخرى التحلق، واستدل به بعض الناس على كراهة حلق الرأس ولا دلالة فيه وإنما هو علامة لهم، والعلامة قد تكون بحرام وقد تكون بمباح كما قال صلى الله عليه وسلم: "آيتهم رجل أسود إحدى عضديه مثل ثدي المرأة” ومعلوم أن هذا ليس بحرام، وقد ثبت في سنن أبي داود بإسناد على شرط البخاري ومسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم (رأى صبياً قد حلق بعض رأسه فقال احلقوه كله أو اتركوه كله) وهذا صريح في إباحة حلق الرأس لا يحتمل تأويلاً، قال أصحابنا: حلق الرأس جائز بكل حال، لكن إن شق عليه تعهده بالدهن والتسريح استحب حلقه وإن لم يشق استحب تركه.شرح المشکوۃ للطیبی الکاشف(3/819)میں ہے:وكان علي كرم الله وجهه يجز شعره وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة لأنه قرره علي ذلك ولأنه رضوان الله عليه اجمعين من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم.حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ(1/208)میں ہے:( عاديت شعري )أي عاملته معاملة العدو في البعد.( يجزه )أي من أن يجزه بتشديد المعجمة وهو قص الشعر والصوف واستدل بالحديث على جواز حلق الرأس وجزه لأنه صلى الله عليه وسلم أقر عليا على ذلك ولأنه من جملة الخلفاء الراشدين المأمور الناس بالاقتداء بهم والتمسك بسنتهم .مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 133)میں ہے:فمن ثم عاديت رأسي أي فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الإستئصال وقطع دابره قال الطيبي وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة لأنه قرره ولأن عليا رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم ا ه ولا يخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفا لسنته عليه الصلاة والسلام وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك يكون رخصة لا سنة والله تعالى أعلم.بذل المجہود فی حل سنن أبی داود (2/ 275)میں ہے:فمن ثم عاديت رأسي) بتقدير المضاف أي عاديت شعر رأسي، أي عاملت مع شعر رأسي معاملة العدو مع العدو، فجززته وقطعته مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري وجلد رأسي، (وكان) أي علي (يجز) أي يحلق (شعره رضي الله عنه).وبهذا الحديث استدل الطيبي على سنية حلق الرأس لتقريره صلى الله عليه وسلم، ولأنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم، ورد عليه القاري وابن حجر فقالا: إن فعله رضي الله عنه إذا كان مخالفا لسنته عليه الصلاة والسلام وبقية الخلفاء يكون رخصة لا سنة.عمدة القاری شرح صحيح البخاری(25/302)میں ہے:قوله التحليق هو إزالة الشعر قوله أو التسبيد بالمهملة والباء الموحدة وهو استيصال الشعر فإن قلت يلزم من وجود العلامة وجود ذي العلامة فكل محلوق الرأس منهم لكنه خلاف الإجماع قلت كان في عهد الصحابة لا يحلقون رؤوسهم إلا في النسك أو الحاجة وأما هؤلاء فقد جعلوا الحلق شعارهم ويحتمل أن يراد به حلق الرأس واللحية وجميع شعورهم.فتح الباری شرح صحیح البخاری(13/546)میں ہے:قوله التحليق أو قال التسبيد شك من الراوي وهو بالمهملة والموحدة بمعنى التحليق … … قال الكرماني فيه اشكال وهو انه يلزم من وجود العلامة وجود ذي العلامة فيستلزم ان كل من كان محلوق الرأس فهو من الخوارج والأمر بخلاف ذلك اتفاقا ثم أجاب بان السلف كانوا لا يحلقون رؤوسهم الا للنسك أو في الحاجة والخوارج اتخذوه ديدنا فصار شعارا لهم وعرفوا به قال ويحتمل ان يراد به حلق الرأس واللحية وجميع شعورهم.ہندیہ(9/172)میں ہے:أن السنة في شعر الرأس إما الفرق وإما الحلق وذكر الطحاوى الحلق سنة ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة كذا في التتارخانية .شامی(9/672)میں ہے:(اما حلق الراس الى اخره)وفى الروضة للزندويستى أن السنة فى شعر الراس اما الفرق أو الحلق وذكر الطحاوى أن الحلق سنة و نسب ذلك الى العلماء الثلاثة.کشاف اصطلاحات الفنون(3/337)میں ہے:العلامة:بالفتح عند الأصوليين :ما تعلق بالشئ من غير تأثير فيه ولا توقف له عليه، إلا من جهة أنه يدل على وجود الشئ، فتباين العلة و السبب والمشهور أنها ما يكون علما على الوجود من غير أن يتعلق به ولا وجود.الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ(26/5) میں ہے:الشروط جمع شرط و هو لغة العلامة، و اصطلاحاً ما يلزم من عدمه العدم و لايلزم من وجوده وجود.امداد الفتاوی (4/224)میں ہے:سوال: – زید کہتا ہے کہ سارے سر میں بال رکھانا سنت ہے، اور بلا حج سر منڈوانا خلاف سنت ہے، اور خشخشے بال رکھانے والے کو سخت مخالف سنت خیال کرکے قابل ملامت کہتا ہے، عمرو کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سر مُنڈواتے تھے، اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اس فعل سے کبھی منع نہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سر مُنڈانا بھی غیر ایام حج میں سنت ہے، اور خشخشے بال رکھنے کی ممانعت نہیں ، وہ اپنی اصل پر رہیں گے، اور اصل اباحت وجواز ہے، خشخشے بال رکھنا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے یا نہیں ؟ اور اُن کو جو زید بدعت کہتا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اور ایسے بال رکھانے والا شرعًا قابل ملامت ہے یا نہیں؟
الجواب:سنت مطلقہ وہ ہے جس کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بطور عبادت کیا ہے، ورنہ سنن زوائد سے ہوگا، تو بال رکھنا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا بطور عادت کے ہے، نہ بطور عبادت کےاس لئے اولیٰ ہونے میں تو شبہ نہیں ، مگراس کے خلاف کو خلافِ سنت نہ کہیں گے اگر چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی نہ ہوتی چہ جائے کہ وہ حدیث بھی ہے، اوررسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کاانکار نہ فرمانا یقینی دلیل ہے بال نہ رکھنے کی، جواز بلاکر اہت کے اور خلافِ سنت نہ ہونے کے ۔ پس جس حالت میں بالکل منڈادینا جائز ہے تو قصر کرانے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved