- فتوی نمبر: 23-310
- تاریخ: 02 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
ایک ڈاکٹر کے کلینک کا اشتہار اس طرح ہے کہ اس میں مختلف مقدس نام ہیں "وھاب "احمد "سمیع اللہ "("وھاب کلینک کا نام ہے جیسے وھاب چلڈرن کلینک اور "احمد” ڈاکٹر صاحب کا نام ہے جیسے ڈاکٹر اقبال احمداور "سمیع اللہ ” چوک کا نام ہے جیسے گلی نمبر 19 سمیع اللہ چوک )کس طرح بے ادبی سے بچا جا ئے؟اشتہار کی کاپی ساتھ لف ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: 1-بے ادبی کی وضاحت فرمائیں کہ بےادبی کیسے ہے؟2- سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟
جواب وضاحت :1-یہ پمفلٹ چھپوا کر پہلے گھروں میں تقسیم کر دیے ہیں اب دوبارہ چھپانے کا ارادہ کیا ہے تو خیال آیا ہے کہ اس میں مقدس نام ہیں نیچے گریں گے بے ادبی ہوگی۔2-میں کلینک مین بطور ملازم کام کر تا ہوں اور کلینک والے میرے ماموں ہیں انہوں نے مجھ سے پوچھا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اللہ تعالی کے بعض نام ایسی ہیں جو بندوں کے بھی ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالی کے بھی چناچہ "وھاب "اللہ تعالی کا نام بھی ہو سکتا ہے اور بندوں کا بھی جس صورت میں "وھاب "بندے کا نام ہو اس صورت میں اس کے وہ احکام نہیں جو اللہ تعالی کا نام ہونے کی صورت میں ہیں اسی طرح "احمد "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی ہو سکتا ہے اور کسی عام بندے کا نام بھی ہوسکتا ہے اس میں بھی یہی تفصیل ہے کہ جو احکامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہونے کی صورت میں ہیں وہ عام آدمی کا نام ہونے کی صورت میں نہیں لہذا "وھاب "سے اگر اللہ تعالی کا نام مراد نہیں اور” احمد "سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مراد نہیں تو ان کے ادب آداب کا بھی وہ حکم نہیں جو اللہ تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہونے کی صورت میں ہے تاہم پھر بھی احتیاط کریں تو اچھی بات ہے البتہ "سمیع اللہ” میں لفظ "اللہ” موجود ہے جس کا احترام بہت ضروری ہے لہذا یا تو اس سے مذکورہ نام کاٹ دیا جائے یا صرف سمیع لکھنے پر اکتفا کیا جائے۔ ورنہ گھروں میں پھینکیں نہیں بلکہ لوگوں کے ہاتھ میں دیں۔
تبيين الحقائق (1/ 58)ميں ہے:ويكره كتابة القرآن وأسماء الله تعالى على ما يفرش لما فيه من ترك التعظيم، وكذا على المحاريب والجدران لما يخاف من سقوط الكتابة۔امداد الاحكام (229/1) میں ہے:سوال :ایک کنویں کے وسط دیوار میں ایک کتبہ نام بانی ،تاریخ بناء ،بمع بسم اللہ ،و کلمہ شریف لگا ہوا ہے اس میں خوف بے ادبی کاہے کیا اس کارہنے دینا جائز ہے یا نہیں اگر نہیں تو کیا حروف محوکیے جاویں یا صحیح سالم کتبہ نکال کر کسی اونچی جگہ مسجد وغیرہ میں رکھ دیا جاوے ؟
الجواب :قال في العالمگيرية وليس بمستحسن كتابة القرآن على المحاريب والجدران لما يخاف من سقوط الكتابة وأن توطأالي ان قال فالواجب أن يوضع في أعلى موضع لا يوضع فوقه شيء وكذا يكره كتابة الرقاع وإلصاقها بالأبواب لما فيه من الإهانة كذا في الكفاية۔
پس اگر متولی یا محلہ والے راضی ہوں تو اس کتبہ کو نکال کر کسی اونچی جگہ پر ادب سے رکھ دیا جاوے مسجد میں بھی چسپاں نہ کیا جاوے۔
امداد الفتاوی (54/4) میں ہے:سوال :1-کاغذ کی وہ ردی کہ جس میں خدا اور رسول کے اسماء مبارک وغیرہ ونیز ہر قسم کی تحریر ہووےاور اس کو پھاڑ پھاڑ کر اور پانی میں گلا کر اس میں کھلی یا آٹا وغیرہ ملا کر طسلہ یا ڈلیاں وغیرہ تیار کریں جیسا کہ مروج ہے یہ عمل جائز ہے کہ نہیں؟2-مذکورہ بالا ردی اگر جلا کر اس میں کپڑا رنگ کر استعمال کیا جائے جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب :ولا يجوز لف شئ في كاغذ فيه فقه، وفي كتب الطب يجوز، ولو فيه اسم الله أو الرسول فيجوز محوه ليلف فيه شئ الخ۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ جن کا غذات میں دینی احکام لکھے ہو ں ان کو ایسے استعمال میں لانا جائز نہیں اور جن کاغذات میں اور مضامین ہوں ان کو ایسےاستعمال میں لانا جائز ہے مگر اس میں بھی یہ ضرور ہے کہ جہاں جہاں اللہ و رسول کا نام لکھا ہو اس کو محو کر دے یعنی یا تو اس پر سیاہی پھیر دے یا اس کو زبان سے چاٹ کر لعاب نگل جائے یہ دونوں سوالوں کا جواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved