• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)میراث کی  تقسیم  (2)مرحومہ کے جہیز اور(3) مہر کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

1-کیا فرما تے ہیں  علماء دین مندرجہ ذ یل مسائل کے  بارے میں کہ 4 نومبر 2020 ءکو میری بیٹی کا انتقال ہو گیا   مرحومہ کےورثاء  میں    والدین ،شوہر ، اور 3 بیٹےہیں  اور مرحومہ نےغیر وارث  کے حق میں بھی کوئی  وصیت نہیں کی از روئے شرع مسئلہ  کا جواب تحریر کریں کہ ہر  وارث کا کتنا حصہ ہے   ؟

2-              دوسری بات یہ ہے کہ مرحومہ کے  صرف والدین  یہ چاہتے ہیں  کہ مرحومہ کا جہیز  فروخت کرکے  اسکی رقم مسجد یا مدرسہ  میں لگا دی جاے  تاکہ  مرحو مہ کو اسکا ثواب پہنچتارہے  کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

3              –               کیا مرحومہ کا شوہر  مرحومہ کے والدین کی ملکیت میں دعویدار ہو سکتا ہے  ؟

4-                                           اور مرحومہ کا اگر مہر ادا نہیں کیا گیا ہو تو اس کا  کیا حکم ہے؟  مفصل ومدلل جواب تحریر فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-مذکورہ صورت میں مرحومہ کے کل ترکہ کے 36 حصے کیے جائیں  گے جن میں سے 9 حصے مرحومہ کے شوہر کو ملیں گے اور 6حصے  مرحومہ کی والدہ کو ملیں گے اور 6 حصے مرحومہ کے والد کو ملیں گے اور 4-4حصے مرحومہ کے ہر ہربیٹے کو ملیں گے ۔صورت تقسیم  درج ذیل ہے:

12×3=36                                                                                            

شوہروالدہوالد3بیٹے
4/16/16/1عصبہ
3×32×32×35×3 =15
9665+5+5

 

2- جہیز کا سامان بھی مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہے ،لہذا اگر تمام ورثاء  بالغ ہیں اور راضی ہیں تو جہیز کا سامان فروخت کرکے مسجد یا مدرسے کو رقم دی جا سکتی ہے ورنہ والدین کل ترکہ میں سے صرف اپنے حصہ کے بقدر جہیز کا سامان فروخت کرکے رقم دے سکتے ہیں۔

الدر المختار (4/304)میں ہے:"( جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعده إن سلمها ذلك في صحته ) بل تختص به ( وبه يفتى ) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ” ولوالجية

امدادالفتاوی (2/292) میں ہے :سوال :۔کیا بلا حصول طلاق منجانب خاوند بی بی یااس کا ولی ایسی صورت یا کسی حالت میں کہ بی بی خود یا ولی اس کا عدم موجودگی وبلا اجازت شوہر وعدم رضا مندی اُن اشخاص کے کہ جن کی حفاظت میں ہے بجبر چلی جاوے یا اپنے مکان پرلے جاوے مستحق پانے ۔۔۔واپسی اسباب جہیز کے شوہر سے ہوسکتے ہیں ؟جواب:۔۔۔۔ اوراسباب جہیز کا واپس کرنا یہ بات عرف کے متعلق ہے اگر عرفاً جہیز کو دختر کے مِلک کرتے ہوں تووہ اسباب اس کا مملوک ہے اپنی چیز کی واپسی کااختیار ہے اور اگر عرفاً شوہر کی ملک کرتے ہوں تو واپس کرنا عورت کو تو جائز نہیں اورولی کا واپس کرنا رجوع فی الہبہ ہے جو اس کا حکم ہے وہی اس کا جوشرائط و موانع اس کے ہیں وہی اس کے اور واپس کرنا مکروہ ہوگا جوعرفاً دونوں کا مملوک کرتے ہوں تو شئے مشترک ہے بغیر تقسیم واپسی درست نہیں ۔

3-شوہر مرحومہ کے والدین کی ملکیت میں کوئی دعوی نہیں کر سکتا تاہم والدین اپنی رضامندی سے اپنے نواسوں کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

4-اگر شوہرنے ابھی تک  بیوی کو مہر  نہیں دیا   یہاں تک کہ بیوی کا انتقال ہو گیا تو اب بھی وہ مہر شوہرکے   ذمے ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے اور وہ مہر سب ورثاءمیں اسی ترتیب سے  تقسیم ہوگاجو اوپر درج ہے ۔

فتاوی شامی (5/167)میں ہے:ويتأكد ( عند وطء أو خلوة صحت ) من الزوج ( أو موت أحدهما ) ( ويتأكد ) أي الواجب من العشرة أو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه …قال في البدائع وإذا تأكد المهر بما ذكر لا يسقط بعد ذلك وإن كانت الفرقة من قبلها لأن البدل بعد تأكده لا يحتمل السقوط إلا بالإبراء كالثمن إذا تأكد بقبض المبيع اه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved