• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک وارث کا مشترکہ مکان میں سے اپنا حصہ کسی دوسرے شریک کو فروخت کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے  ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ  میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں اور میرے والد صاحب کا ایک مکان ہے جو کہ 5 کمروں پر مشتمل ہے اور ہر بھائی کے حصے میں ایک کمرہ ہے اور پانچواں کمرہ  جو کہ والدین کے نام ہے اب چاروں بھائیوں کا مشترکہ ہے ہم تین بھائی  سید عارف علی ،سید واصف علی،سید وارث علی اس مکان میں رہتے تهے اور ہمارا سب سے چھوٹا بھائی سید وقار علی اس مکان میں نہیں رہتا تھا میرا اپنےبھائی سید واصف علی سے جھگڑا رہتا تھا جب بھائی سید واصف علی نے مکان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس نے مکان میں سے اپنے حصے کا کمرہ خاندان سے باہر غیروں کو گروی دینا چاہا اسے اس عمل سے روکنے کے لیے محلے کے چند معزز لوگوں کی گواہی میں اپنے بھائی سید واصف علی کو اس کے حصے کی رقم مبلغ 180000(ایک لاکھ اسی ہزار)روپے میں نے ادا کیے اور مکان کا وہ مخصوص حصہ  میں نے اپنے قبضے میں لے لیا ۔جو حصہ بھائی سے میں نے لیا ہے اس کی ادا شدہ رقم کی تفصیل میرے پاس قانونی طور پر موجود  ہے میرے دیگر بہن ،بھائی اس عمل سے واقف تو نہیں مگر حصہ لیتے وقت کسی نے کوئی بات نہیں کی مکان کا وہ حصہ جو میں نے اپنے بھائی واصف علی سے لیا  تھا وہ میں نے آگے کرایہ پر دے دیا تھا اور وہ رقم جو کرایہ کی صورت میں  آئی وہ ساری رقم مکان کی مرمت پر لگا دی ہےاور اب وہ لوگ  مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو حصہ عارف علی نے  بھائی واصف علی سے لیا ہےاس میں سے ہمیں بھی حصہ دیں بہنوں کو ان کا حصہ دینے سے کوئی بھائی انکار نہیں کرتا کیا اب جو حصہ عارف علی نے اپنے بھائی واصف علی سے قانونی طور پر خریداتھا اس میں باقی بھائیوں کا حصہ بنتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں ۔

واصف علی کا ٹیلی فون پر بیان:

جب میں اپنےاس  مکان میں رہتا تھا تومیرااپنے بھائی  عارف علی  سے کافی جھگڑا رہتا تھا میں نے مجبور ہوکر  وہ مکان عارف علی کو بیچ کر اس سے اس مکان کی رقم لے کر اپني جان چھڑ والی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں جب عارف علی نےاپنے بھائی  واصف علی سے اس کا حصہ خرید لیا ہے تواب واصف علی کے حصہ میں دیگربہن ، بھائیوں کا حق نہیں ہےاس حصہ کا صرف عارف علی حقدار ہے  ۔

درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام (1/ 162)میں ہے:( المادة 214 ) : بيع حصة شائعة معلومة كالثلث والنصف والعشر من عقار مملوك قبل الإفراز صحيح . مثال ذلك : إذا باع إنسان من آخر حصته في الدار الفلانية فإذا كان الآخر عالما بمقدار حصته في تلك الدار فالبيع صحيح إن كان البائع أيضا عالما بمقدار حصته أو مصدقا للمشتري فيما بينه من مقدار حصته أما إذا كان المشتري لا يعرف الحصة فالبيع غير صحيح سواء أكان البائع يعرف تلك الحصة أم لا يعرفها ( الهندية ) ( انظر المادة 200 ) . وتحت حكم هذه المادة الصورتان الآتيتان : الأولى أن يكون العقار جميعه ملكا لإنسان واحد فيبيع ثلثه ويبقي ثلثيه . الثانية : أن يكون العقار مشتركا بين اثنين لكل منهما النصف مثلا فيبيع أحدهما نصف حصته الشائعة من آخر ففي هاتين الصورتين يصح البيع إلا أنه يشترط عند الطرفين أن يكون المشتري عالما بالحصة وعند الثاني لا يشترط ويصح البيع ولو كانت الحصة مجهولة ويستفاد من تعبير المجلة ( بمعلوم ) أنها اختارت قول الطرفين إلا أنه في البيع لأجنبي يكون للشريك حق الشفعة ۔۔۔۔( المادة 215 ) يصح بيع الحصة المعلومة الشائعة بدون إذن الشريك سواء كان المشاع قابلا للقسمة أو غير قابل عقارا أو منقولا  لأنه كما سيذكر في المادة 1192 لكل أن يتصرف في ملكه كما يشاء وهذا البيع من جملة التصرفات وعلى هذا كما يحق لأحد الشريكين أن يبيع العرصة المشتركة من شريكه فكذلك يحق له أن يبيع حصته من الأجنبي بدون إذن من شريكه وكما أن لمن يملك حصة في دار مشتركة أن يبيع حصته في تلك الدار مع عرصتها لشريكه فله أن يبيع هذه الحصة من الأجنبي ولشريكه حق الشفعة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved