- فتوی نمبر: 11-312
- تاریخ: 31 مارچ 2018
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
میں اپنا ذاتی کاروبار کرتا ہوں۔ میں نے 2008ء میں ماموں سے بات چیت کر کے ان سے کچھ رقم اس بنیاد پر لی کہ میں ان کے پیسوں سے باہر ممالک سے مال منگوا کر اسے فروخت کروں گا اور نفع آدھا آدھا ہو گا لیکن نفع تقسیم کرنے کا کوئی دورانیہ طے نہیں تھا کہ کتنے عرصے بعد نفع تقسیم ہو گا اور نقصان کے بارے میں کچھ طے نہیں کیا گیا چنانچہ میں ماموں سے 25 لاکھ روپے یکمشت لیے اور اس سے مال منگواتا رہا اور فروخت کرتا رہا اور اس کا حساب و کتاب اپنے ذاتی کاروبار سے الگ رکھا گیا۔ پھر جب کاروبار سے نفع آنا شروع ہوا تو میں اپنے حصے کا نفع نکالتا رہا اور چونکہ ماموں نے نفع کی وصولی کا مطالبہ نہیں کیا اس لیے ان کے علم میں لائے بغیر ان کے نفع کو اسی کاروبار میں لگاتا رہا۔
2014ء تک اس کاروبار سے تقریباً 10 لاکھ روپیہ نفع آیا جن میں سے میں نے اپنا حصہ (پانچ لاکھ روپے) نکال لیا تھا اور ماموں کے پانچ لاکھ روپے اسی کاروبار میں لگائے۔ اس وقت تک ماموں کا کل سرمایہ مع نفع 30 لاکھ روپے ہو چکا تھا۔
اسی سال میرے ایک دوست نے تین قسطوں میں تقریباً 55 لاکھ روپے دیئے۔ اس کی اجازت سے میں نے وہ رقم اسی چلتے ہوئے کاروبار میں شامل کر دی۔ دوست کے ساتھ بھی یہ طے ہوا کہ پیسے آپ کے ہوں گے کام میں کروں گا اور نفع آدھا آدھا ہو گا جب کہ نقصان کے بارے میں کچھ طے نہیں کیا گیا۔ دوست کے ساتھ نفع کی تقسیم کے سلسلے میں یہ طے ہوا کہ جیسے جیسے نفع ہوتا جائے گا مناسب مدت کے بعد وہ تقسیم ہوتا رہے گا۔ دوست کو اسی کاروبار میں شریک کرتے وقت میں نے ماموں کو اطلاع نہیں دی اور نہ ان کی طرف سے ایسی کوئی ممانعت تھی۔
چنانچہ اس طرح اس دوست اور ماموں دونوں کے پیسے مل گئے اور کاروبار چلتا رہا لیکن ہر چیز کا حساب و کتاب رکھا جاتا تھا کہ ماموں کا سرمایہ کتنا فیصد ہے اور دوست کا کتنا ہے اور اسی تناسب سے نفع کا حساب بھی رکھا جاتا تھا۔ اس کاروبار میں سارا سرمایہ میرے ماموں اور دوست کا تھا میری صرف محنت تھی، ماموں کا نفع اسی کاروبار میں لگتا رہا جب کہ وقتاً فوقتاً میں اپنا نفع اور درست کے حصہ کا نفع نکال کر تقسیم کرتا رہا۔
میں نے باہر ممالک سے مال منگوانے کے سلسلے میں کراچی میں ایک ایجنٹ سے معاملہ کیا ہوا تھا کہ وہ مطلوبہ مال امپورٹ کر کے مجھے فروخت کرے گا۔ چنانچہ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی تو اس ایجنٹ کو آرڈر دیتا تھا اور وہ امپورٹ کر کے مجھے مال بھیج دیتا۔ اس کے ساتھ یہ طے کیا گیا کہ آرڈر ملنے اور پیمنٹ ہو جانے کے بعد 20 دن میں وہ مال بھیج دیا کرے گا، چنانچہ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا میں ایڈوانس پیمنٹ دیتا رہا اور وہ مال بھیجتا رہا، لیکن اس میں یہ لازمی نہیں تھا جتنی پیمنٹ گئی ہے اتنا ہی مال آ جائے پھر دوسری پیمنٹ ہو بلکہ یہ ایک سرکل چلتا رہا کہ ادھر سے پیمنٹ جاتی رہی اور مال آتا رہا تاہم اس کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا کہ مال کتنا آیا ہے اور پیمنٹ کتنی گئی ہے، نیز مارکیٹ میں امپورٹ کے لیے ایجنٹ کو ایڈوانس ادائیگی ہی کی جاتی ہے، اور ایجنٹ کا مال کبھی کم اور کبھی زیادہ بھیجنا مارکیٹ میں عام ہے۔ ایجنٹ سے تاخیر کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ جواب دیتا کہ پیچھے سے مال لیٹ ہو گیا ہے یا پھنس گیا ہے وغیرہ۔
لیکن کچھ عرصہ بعد وہ مال دینے میں تاخیر کر رہا تھا اسے بار بار کہا جاتا تو کبھی وہ تھوڑی مقدار میں مال بھیج دیتا بعض اوقات لوکل مارکیٹ سے ہی مال خرید کر بھیج دیتا تاکہ تھوڑا بہت سرکل چلتا رہے۔ میں نے اپنے ماموں اور دوست کو اس بات کی اطلاع نہیں دی کہ ایجنٹ مال بھیجنے میں تاخیر کر رہا ہے۔ اسی طرح چلتے چلتے بال آخر اس نے دسمبر 2014 ء میں جواب دیدیا کہ میں دیوالیہ ہو گیا ہوں، میرا کاروبار ڈوب گیا ہے اب میرے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے میں مزید مال اور پیسے نہیں دے سکتا۔ جب کہ اس وقت تک میری طرف سے اسے تقریباً 55 لاکھ روپے ایڈوانس میں بھیجے جا چکے تھے، جس کے عوض اس نے مال بھیجنا تھا۔
اس وقت تک دوست اور ماموں کا مجموعی سرمایہ 85 لاکھ روپے تھا جن میں سے تقریباً 55 لاکھ روپے (یعنی 60 فیصد) دوست کے اور 30 لاکھ روپے (40 فیصد) ماموں کے تھے، یعنی اب 55 لاکھ روپے ایڈوانس پیمنٹ کے طور پر ایجنٹ کے پاس چلے گئے۔ (جن میں سے 40 فیصد ماموں کا اور 60 دوست کا تھا) اس وقت تقریباً تین لاکھ روپے کا سامان تجارت (Inventry) موجود تھا جو بعد میں فروخت کر دیا گیا جب کہ 32 لاکھ روپے کا مال مختلف لوگوں کو ادھار پر گیا تھا جس کی پیمنٹ واپس ملنے والی ہے۔
جب ایجنٹ نے مال اور ایڈوانس ادا کئے گئے پیسے دینے سے انکار کر دیا تو مجھے کافی پریشانی ہوئی کہ میں نے جن سے پیسے لیے تھے انہیں واپس کرنے ہیں چنانچہ میں نے اپنے دوست کو مختلف قسطوں میں اس کا اصل سرمایہ مع نفع کے واپس کر دیئے، لیکن ماموں کے پیسے ابھی تک واپس نہیں کئے، جب کہ کام کے دوران ایجنٹ کے ڈیفالٹ ہونے کا مجھے بالکل اندازہ نہیں ہوا، بلکہ میں اپنے طور اسے ٹھیک سمجھ کر پیسے بھیجتا رہا اور وہ بھی کبھی کبھار تھوڑا بہت مال بھیجتا رہا اور میں اس کا حساب و کتاب رکھتا گیا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ بندہ بعد میں مال نہیں دے گا۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ایجنٹ کے انکار کرنے کی وجہ سے جو ایڈوانس دیئے گئے پیسے ڈوب گئے شرعی طور پر اس کا ضمان مجھ پر لازم ہو گا یا نہیں اگر لازم ہے تو کتنی حد تک لازم ہو گا؟
وضاحت: ایجنٹ کے ساتھ کاروبار 5 سال تک جاری رہا۔ ایجنٹ کو پیسے دینے کا طریقہ کار اس طرح تھا کہ پہلے ان کو 25/20 لاکھ روپے دئے، انہوں نے ان پیسوں سے مال خرید کر مجھے بھیجا، پھر میں نے وہ مال بیچ کر اس کو دوبارہ 10 لاکھ روپے دیے اس طرح میں پیسے دیتا رہتا تھا وہ مال بھیجتا رہتا تھا اور مارکیٹ میں بھی ایجنٹ کے ذریعے کاروبار کا یہی مذکورہ بالا طریقہ کار رائج ہے کہ ان کو اتنی رقم عام طور پر دی جاتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ آپ کے ماموں کا اصل سرمایہ 25لاکھ روپے تھا ۔
2۔ماموں کے لگائے ہوئے سرمایہ سے آپ جو نفع لیتے رہے وہ گویا علی الحساب تھا حتمی نفع نہ تھا اس لیے وہ واپس کرنا ہوگا ۔
3۔ماموں اور دوسرے دوست کاکل سرمایہ 80لاکھ تھا جس میں 25لاکھ آپ کے ماموں کے تھے اور 55لاکھ روپے آپ کے دوست کے تھے ۔
4۔ایجنٹ کو جو 55لاکھ روپے بھیجے گئے ان کو 80حصوں میں تقسیم کرکے ماموں کے گویا 25حصے اور دوست کے 55حصے ڈوبے یعنی آپ کے ماموں کا سرمایہ 1718750روپے تھا اور 3781250روپے آپ کے دوست کا تھا ۔
5۔دوست کو تو آپ نے جیسے تیسے کر کے فارغ کردیا ۔ماموں کے سرمایہ میں جو نفع آپ نے لیا وہ واپس کر کے اور جو وصولیاں لوگوں سے کرنی ہیں وہ کرکے اور جو ساما ن ہے اسے فروخت کر کے 25لاکھ پورا کرنے کی کوشش کریں اگر پھربھی پورا نہ ہو تو زائد کے آپ ذمہ دار نہیں ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved