• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لاپتہ ورثاء کے حصہ کاحکم

استفتاء

ایک شخص کے دو بیٹے ایک ساتھ لا پتہ ہوگئے تھے، لا پتہ ہونے کےتیس سال بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب ایسی صورت میں ان لا پتہ بیٹوں کا حصۂ میراث ان کی اولاد کو ملے گا یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں والد کی طرف سے دو لا پتہ بیٹوں کو ملنے والے حصے کو  محفوظ رکھا جائے گا۔ اگر وہ دو بیٹے ان کے ہم عمر لوگوں کے  مرنے سے پہلے واپس آجائیں تو ان کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ اور اگر وہ ان کے ہم عمر لوگوں کے مرنے تک واپس نہ آئیں تو عدالت میں درخواست دے کر ان کی موت کا حکم حاصل کیا جائے گا، اس میں احتیاط ہے۔ اور اگر عدالتی کاروائی میں دشواری ہو تو عدالتی کاروائی کے بغیر ہی جو حصہ ان کے لیے محفوظ رکھا گیا تھا وہ والد کی وفات کے وقت جو ورثاء موجود تھے ان کو یا ان کے ورثاء کو ان کے شرعی حصوں کے بقدر دیدیا جائے گا۔

اس کے بعد بھی اگر وہ لا پتہ بیٹے آگئے تو ان کے حصوں میں سے جو کچھ خرچ ہو چکا ہو گا اس کا مطالبہ نہ ہو گا اور جو باقی ہو گا وہ ان کو واپس دیدیا جائے گا۔

سراجی (ص: 54) ميں ہے:

المفقود حي في ماله حتى لا يرث منه أحد و ميت في مال غيره حتى لا يرث من أحد و يوقف ماله حتى يصح موته أو تمضي عليه مدة، و اختلف الروايات في تلك المدة ففي ظاهر الرواية أنه إذا لم يبق أحد من أقرانه حكم بموته …………….فإذا مضت المدة ……….. و ما كان موقوفاً لأجله يردّ إلى وارث مورثه الذي وقف ماله.

و في حاشيته تحت قوله: (و يوقف ماله …. إلخ) لما كان قوله فيما سبق ”لا يرث من أحد“ يوهم نفي توريث المفقود أصلاً فسره بقوله: و يوقف … الخ أي يبقى حظه موقوفاً إلى أن تيقن بموته أو تمضي عليه مدة .

فتاوٰی شامی (456/6) میں ہے:

قلت وفي واقعات المفتين لقدري أفندي معزيا للقنية أنه إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة ( فإن ظهر قبله ) قبل موت أقرانه (حيا فله ذلك) القسط.

في الشامية: قوله: (بقضاء الخ) هو أحد قولين. قال القهستاني: وفي الفاء من قوله: فتعتد عرسه دلالة على أنه يحكم بموته بمجرد انقضاء المدة فلا يتوقف على قضاء القاضي كما قال شرف الائمة. وقال نجم الائمة القاضي عبد الرحيم: نص على أنه يتوقف عليه كما في المنية اه، وما قاله شرف الائمة موافق للمتون سائحاني.

قلت: لكن المبتادر من العبارة أن المنصوص عليه في المذهب الثاني. ثم رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا: أي ما روى عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء الخ.

قوله: (فإن ظهر قبله) هذه القبلية لا مفهوم لها وإن ذكرها الكثيرون سائحاني، ولذا قال في البحر: وإن علم حياته في وقت من الاوقات يرث من مات قبل ذلك الوقت من أقاربه اه.

لكن لو عاد حيا بعد الحكم بموت أقرانه قال ط: أن الظاهر أنه كالميت إذا احيي والمرتد إذا اسلم، فالباقي في يد ورثته له و لا يطالب بما ذهب …….. تأمل.

امداد الاحکام (578/4) میں ہے:

’’حاصل یہ ہوا نمبر 1: صورت مسئولہ میں بعد موت اقران کے بدون قضاء قاضی کے ورثہ کا مال مفقود پر قبضۂ مالکانہ کر لینا جائز ہے  على قول شرف الأئمة. و اخترناه في حق الأموال تيسيراً و أما في الزوجة فنختار قول نجم الأئمة احتياطاً في باب  الفروج‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved