• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سجدے میں پیشانی اور ناک  زمین پر لگانے کا حکم

استفتاء

سجدے میں پیشانی اور ناک دونوں کو زمین پر لگانا واجب ہے یا مسنون ؟ زید کا موقف ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں کالگانا راجح قول کے مطابق واجب ہےبلا عذر دونوں کو نہ لگانے اور ایک پر اکتفا کرنے سے  نماز واجب الاعادہ ہےجبکہ بکر کا موقف یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں پیشانی اور ناک دونوں کو لگانا مسنون ہے اگر صرف پیشانی لگانے پر اکتفا کرے اور ناک نہ لگائے تو راجح قول کے مطابق کراہت تنزیہی کے ساتھ نماز ہوجائے گی اور اعادہ واجب نہیں ہے ۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بہشتی زیور میں اسی قول کو ترجیح دی ہے ۔سوال یہ ہے کہ  جمہور احناف کے نزدیک ان دونوں میں سے کس کا موقف راجح  ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماری تحقیق میں پورے طور پر نہ زید کا مؤقف درست ہے اور نہ بکر کا ، بلکہ صحیح مؤقف یہ ہے کہ سجدے میں پیشانی زمین پر لگانا فرض ہے جبکہ پیشانی کے ساتھ ناک بھی لگانا واجب ہے لہذا صرف ناک پر اکتفا کرنا تو بالکل جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں پیشانی رکھنے کا فرض  رہ جائے گا البتہ صرف پیشانی پر اکتفا کرنے میں فرض تو ادا ہو جائے گا لیکن واجب کی ادائیگی رہ جائے گی اور نماز ناقص اور مکروہ تحریمی ہوگی ا ور واجب الإعادہ ہوگی ۔فتاوی شامی (249/2)میں ہے:

"(وكره اقتصاره) في السجود (على أحدهما) ومنعا الاكتفاء بالانف بلا عذر وإليه صح رجوعه وعليه الفتوى كما حررناه في شرح الملتقى ۔قوله ( كما حررناه في شرح الملتقى ) حيث قال وإليه صح رجوع الإمام كما في الشرنبلانية عن البرهان وعليه الفتوى كما في المجمع وشروحه والوقاية وشروحها والجوهرة وصدر الشريعة والعيني والبحر والنهر وغيرها ا هـ وذكر العلامة قاسم في تصحيحه أن قولهما رواية عنه وأن عليها الفتوى  هذا وقد استشكله المحقق في الفتح بأن القول بعدم جواز الاقتصار على الأنف يلزم منه الزيادة على الكتاب بخبر الواحد يعني حديث أمرت أن أسجد على سبعة أعظم وقال الحق أن مقتضاه ‘ومقتضى المواظبة الوجوب فلو حمل قوله على كراهة التحريم وقولهما على وجوب الجمع لارتفع الخلاف وأقره في شرح المنية وكذا في البحر وزاد أن الدليل يقتضي وجوب السجود على الأنف أيضا كما هو ظاهر الكنز والمصنف فإن الكراهة عند الإطلاق للتحريم وبه صرح في المفيد والمزيد فما في البدائع والتحفة والاختيار من عدم كراهة ترك السجود على الأنف ضعيف ا ه وهذا الذي حط عليه كلام صاحب الحلية فقال بعدما أطال في الاستدلال فالأشبه وجوب وضعهما معا وكراهة ترك وضع كل تحريما وإذا كان الدليل ناهضا به فلا بأس بالقول به ا هـ "

بحر الرائق (555/1) میں ہے :

. فالحاصل أنه لا خلاف بينهم، فقول الامام بكراهةالاقتصار على الانف المراد بها كراهة التحريم وهي في مقابلة ترك الواجب، وقولهما بعدم الجواز المراد به عدم الحل وهو كراهةالتحريم، فالسجود على الجبهة واجب اتفاقا لان مقتضى الحديث والمواظبة المروية في سنن الترمذي كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سجد مكن جبهته وأنفه بالارض وقال حديث حسن صحيح. وهكذا في صحيح البخاري لكن هذا يقتضي وجوب السجود على الانف كالجبهة لان المواظبةالمنقولة تعمهما مع أن المنقول في البدائع والتحفة والاختيار عدم الكراهة بترك السجود على الانف، وظاهر ما في الكتاب يخالفه فإنه قال: وكره أي الاقتصار على أحدهما، سواء كان الجبهة أو الانف. وهي عند الاطلاق منصرفة إلى كراهة التحريم، وهكذا في المفيد والمزيد.فالقول بعدم الكراهة ضعيف۔

مسائل بہشتی زيور  (1/165) میں ہے:

زمین پر پیشانی رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں ۔زمین پر پیشانی لگانا فرض ہے جبکہ اس کے ساتھ زمین پر ناک ٹکانا واجب ہے۔بلا عذر صرف ناک زمین پر لگائی اور پیشانی نہیں لگائی تو نماز جائز نہیں عذر کی وجہ سے صرف ناک پر اکتفا کرنا صرف اس وقت جائز ہے جب اس قدر ناک لگا دے کہ سخت حصہ بھی لگے اگر ناک کے صرف نرم حصہ کو لگایا تو جائز نہیں۔

احسن الفتاوی (21/3)میں ہے:

سوال : ایک شخص نماز پڑھتے وقت سجدہ میں پیشانی کا اکثر حصہ اور ناک زمین پر نہیں رکھتا اس غرض سے کہ پیشانی پر داغ نہ پڑ جائے ، اس کی نماز درست ہے یا نہیں ؟

الجواب ومنہ الصدق والصواب :پیشانی کا اکثر حصہ اور ناک زمین پر رکھنا واجب ہے ، لہذا اس نماز کا اعادہ لازم ہوگا :

قال في الشامية في فصل في بيان تأليف الصلوة إلى إنتهاء ها تحت ( قوله ووضع أكثر ها واجب الخ ) إختلف هل الفرض وضع أكثر الجبهة أم بعضها وإن قل؟ قولان، وأرجحهما الثاني نعم وضع أكثر الجبهة واجب للمواظبة ، وايضا تحت ( قوله كما حررناه في شرح الملتقى ) فالأشبه وجوب وضعهما معا ( أي الجبهة والأنف ) وكراهة ترك وضع كل تحريما الخ ( رد المحتار ، ج 1 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved