استفتاء
(1)چست پاجامہ میں نماز مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟
(2)آدھے بازو والی شرٹ میں نماز مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی ؟
(3)ٹخنوں سے نیچے شلوار میں نماز مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)ایسا چست لباس مثلا پتلون یا پاجامہ جس سے مخفی اعضا ئے ستر کا حجم معلوم ہوتا ہواور اوپر سے کوئی چادروغیرہ بھی نہ اوڑھی ہو کہ جس کی وجہ سے اعضائے ستر کا حجم دکھائی نہ دے تو ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
(2) آدھے بازو والی شرٹ(یعنی جس میں کہنیاں ننگی ہوں ) میں بھی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ،البتہ اگر کہنیاں ننگی نہ ہوں تو مکروہ تنزیہی ہے۔
(3) ٹخنوں سے نیچے شلوار میں بھی نماز مکروہ تحریمی ہے۔
(1) حاشیہ ابن عابدين (1/ 410) میں ہے:
قوله ( ولا يضر التصاقه ) أي بالألية مثلا وقوله وتشكله من عطف المسيب على السبب وعبارة شرح المنية أما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فينبغي أن لا يمنع جواز الصلاة لحصول الستر قال ط وانظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقا أو حيث وجدت الشهوة. قلت سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر والذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول.
(9/603)( قوله وهي غير بادية ) أي ظاهرة وفي الذخيرة وغيرها وإن كان على المرأة ثياب فلا بأس بأن يتأمل جسدها وهذا إذا لم تكن ثيابها ملتزقة بها بحيث تصف ما تحتها ، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته ، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره .
وفي التبيين قالوا:ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ لقوله عليه الصلاة والسلام ” { من تأمل خلف امرأة ورأى ثيابها حتى تبين له حجم عظامها لم يرح رائحة الجنة } ” ولأنه متى لم يصف ثيابها ما تحتها من جسدها يكون ناظرا إلى ثيابها وقامتها دون أعضائها فصار كما إذا نظر إلى خيمة هي فيها ومتى كان يصف يكون ناظرا إلى أعضائها.
أقول : مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه ، قال في المغرب يقال مسست الحبلى ، فوجدت حجم الصبي في بطنها وأحجم الثدي على نحر الجارية إذا نهز ، وحقيقته صار له حجم أي نتو وارتفاع ومنه قوله حتى يتبين حجم عظامها وعلى هذا لا يحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها فيحمل ما مر على ما إذا لم يصف حجمها فليتأمل.
قال الرافعي قوله(وعلى هذا لا يحل النظر الى عورة ) فيه انه مانقله انها هوفي النظر الى المراة وعليها ثياب ملتصقة بها تصف جرمها وهذا لايفيد ان الحكم في الرضل كذلك للفرق الظاهر بينها.وتخصيصهم الحكم المذكور بها يفيد انه ليس كالمراة فيه ولى ماقاله لايخفي مافيه من الحرج خصوصا في زماننا المعتاد فيه لبس الثياب الافرنجية للكثير من اصناف الناس مما يصف ماتحتها والظاهر ابقاء مانقله الشارح على عمومه في حق الرجل ورايت في شرح المتهى الحنبلي مانصه ويجب ستر عورة بما لايصف البشرة اي لونها لان الستر انما يحصل بذلك لا ان لا يصف حجم العضو لانه لايمكن التحرز عنه.
(1)مسائل بہشتی زیور(1/205) میں ہے:
ایسا چست لباس مثلا پتلون یا پاجامہ جس سے مخفی اعضا کی شکل نظر آئے اور اوپر سے کوئی چادر بھی نہ اوڑھی ہو جس میں وہ عضو چھپ گئے ہوں تو ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
(2) رد المحتار (2/ 490) میں ہے:
(و)كره(كفه)اي رفعه ولو لتراب كمشمر كم او ذيل.وحررالخيرالرملي مايفيد ان الكراهة فيه تحريمية……..
وقيد الكراهة في الخلاصة والمنية بأن يكون رافعا كميه إلى المرفقين .
وظاهره أنه لا يكره إلى ما دونهما .
قال في البحر : والظاهر الإطلاق لصدق كف الثوب على الكل ونحوه في الحلية ، وكذا قال في شرح المنية الكبير : إن التقييد بالمرفقين اتفاقي .
(2) مسائل بہشتی زیور(1/205) میں ہے:
اگر قمیص یا کرتہ وغیرہ پہن کر نماز پڑھی جس کی آستینیں کہنیوں سے اوپر تک ہی ہوں تو اس صورت میں بھی کراہت تحریمی ہے۔
(2)فتاوی عثمانی جلد (1/76) میں ہے:
سوال: اگر کوئی آدمی آستین چڑھا کر نماز پڑھے تو کیا یہ جائز ہے؟ کہنیاں کھلی ہوئی ہوں یا نہ کھلی ہوئی ہوں، دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کہنیاں کھلی ہوئی ہوں تو اس طرح نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اس سے کم ہو تو اس میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک مکروہ نہیں، کیونکہ فقہی دلائل میں "مرفقین” کہنیوں تک کے الفاظ آئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے کم ہو تو مکروہ نہیں۔ و کره کفه ای رفعه ولو لتراب کمشمر کم او ذیل، و فی الشامية و قید الکراهة فی الخلاصة و المنية بان یکون رافعا کميه الی المرفقین و ظاهره انه لا یکرہ الی ما دونهما.
اور بعض حضرات کے نزدیک یہ صورت بھی مکروہ ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک آستین چڑھا کر نماز پڑھنا مطلقاً مکروہ ہے۔
لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ بلا ضرورت آستین چڑھا کر نماز نہ پڑھی جائے اور اگر پہلے سے وضو وغیرہ کے لئے آستین چڑھائی ہوئی ہوں تو بہتر یہ ہے کہ عمل قلیل سے نماز میں آستین نیچے کر لے، مثلاً کچھ رکوع، کچھ قومہ میں اور کچھ سجدہ میں نیچے کر لے۔ و اللہ تعالی اعلم.بندہ محمد تقی عثمانی عفی عنہ بندہ محمود اشرف غفر اللہ لہ بندہ عبدالرؤف سکھروی
(2)امداد الاحکام (1/554) میں ہے:
سوال: گنجی (بنیان) جو آج کل نہایت کثرت سے لوگ پہنتے ہیں مثل نیمہ کے کہنی کے اوپرہوتا ہے اس کو پہن کر نمازبلاکراہت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: جس شخص کے پاس کرتہ نہ ہو اس کی نماز گنجی(بنیان) پہن کر بلاکراہۃ درست ہے اور جس کے پاس آستین والا کرتا ہو اس کی نمازگجی پہن کر بکراہت درست ہے کیونکہ نمازمیں کہنیوں کابلاعذر کھولنا مکروہ ہے، نیزعادۃ صرف بنیان پہن کر مجالس عامہ میں جانا معیوب سمجھاجاتا ہے تو صاحب استطاعت کو ایسے لباس میں نمازپڑھنا مکروہ ہے جس کو پہن کر مجالس عامہ میں وہ نہ جاسکے، واللہ اعلم
(2)امداد الاحکام(1/557) میں ہے:
نیم آستین واسکٹ میں نماز پڑھنا
سوال:آدھی بانہوں کی واسکٹ سے بھی نماز ہوسکتی ہے یا مکروہ ہے؟
جواب:فقط نیم آستین پہن کر یعنی جب اس کے ساتھ کرتہ وغیرہ نہ ہو تو نماز مکروہ ہے ،البتہ اگر کسی عذر سے ایسا کیا ہو تو پھر کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔واللہ تعالی اعلم
(2)فتاوی محمودیہ (6/654) میں ہے:
سوال: نصف آستین کی قمیص پہن کر نماز پڑھنا کیساہے؟
الجواب: حامداً ومصلیاً! حضرت نبی اکرم ﷺسے نصف آستین کی قمیص پہننا منقول نہیں ہے۔ ایسی قمیص خلافِ سنت ہے۔ اس کو پہن کر نماز پڑھنا بھی خلافِ سنت ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
(3)عمدۃ الفقہ (2/267) میں ہے:
ان چیزوں کا بیان جو نماز میں مکروہ ہیں:
اسبال یعنی کپڑے کو حد عادت سے بہت زیادہ لمبا رکھنا مکروہ تحریمی اور منع ہے ۔دامنوں اور پائچوں میں اسبال یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو اور آستینوں میں انگلیوں سےآگے ہو ،اور عمامہ میں ہے کہ بیٹھنے میں دبے۔
(3)فتاوی قاسمیہ جلد (7/415) میں ہے:
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ نماز کے لئے پاجامہ اور پتلون وغیرہ کا ٹخنے کھولنے کے لئے موڑنا کیسا ہے؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ٹخنوں سے نیچے پاجامہ وغیرہ پہننا نماز اورخارج نماز دونوں میں ناجائز حرام اورگناہ کبیرہ ہے، اس حالت میں نماز مکروہ تحریمی ہو تی ہے؛ لہٰذا پاجامہ پتلون وغیرہ کا ٹخنہ کھولنے کے لئے موڑنا لازم اور ضروری ہے اور موڑنے سے بدہئیت معلوم ہوتا ہے؛ اس لئے پہلے ہی سے اتنا لمبا نہ بنائے کہ موڑنے کی ضرورت پیش آجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved