• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جو جگہ شراب کے عوض خریدی   گئی ہو کیا وہ جگہ مسجد کو دی جاسکتی ہے ؟

استفتاء

مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں ،میں نے  پانچ مرلہ زمین شراب کے عوض خریدی  تھی ،اب اس جگہ کے ساتھ مسجد تعمیر ہو رہی ہے ،مسجد کی توسیع کے لیے ان کو جگہ درکار ہے ۔آیا کہ وہ جگہ جو میں نے شراب کے عوض خریدی تھی وہ جگہ میں مسجد کو قیمتاً یا ہدیتاً دے سکتا ہوں ؟ برائے کرم قران وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ یہ جگہ کسی مسلمان سے خریدی تھی یا کافر سے اور شراب کونسی تھی ؟ یاکس کمپنی کی تھی؟

جواب وضاحت: یہ جگہ پاکستان میں مسلمان سے خریدی تھی ہوا یوں تھا کہ  1995 میں میں جاپان سے آ رہا تھا تو میرا ایک دوست پاکستان میں ہے وہ شراب بہت پیتا ہے تو اس نے مجھے کہا تھا کہ 2 بوتلیں شراب کی لے آنا اس کے بدلے مجھ سے زمین لے لینا چنانچہ میں لے آیا اور ان بوتلوں اور کچھ رقم کے بدلے میں نے وہ زمین  لے لی اب مجھے یا د نہیں کہ وہ  شراب کونسی تھی یا کس کمپنی کی تھی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شراب  کی  ایک قسم خمر ہے  (یعنی انگور کی کچی شراب) اس شراب کے بدلے کوئی چیز خریدی جائے تو یہ خرید وفروخت شریعت کی نظر میں فاسد ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک خریدی ہوئی چیز باقی ہو تو اس خرید وفروخت کو ختم کیا جائے اور اگر وہ چیز خریدنی ہی ہو تو  دوبارہ صحیح طریقے سے خرید وفروخت کی جائے  اس صورت میں صحیح طریقے سے خرید وفروخت کیے بغیر ایسی چیز کو اپنے استعمال میں لانا یا مسجد کو دینا جائز نہیں۔شراب کی اس  قسم  کے علاوہ باقی تمام قسم کی شرابوں  کا حکم یہ ہے کہ ان کے بدلے کوئی چیز خریدنا  بھی اسی طرح ہے جس طرح خمر کے بدلے خریدنا البتہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک باقی شرابوں کے بدلے کوئی چیز خریدنا اگرچہ  مکروہ ہے  لیکن خرید وفروخت درست ہے ،اور اس صورت میں اگرچہ خریدنے کا گناہ تو ہوگا لیکن جو چیز خریدی ہے اسے خود استعمال کرنا یا آگے مسجد کو قیمتاً یا ہدیتاً دینا جائز ہوگا ۔مذکورہ صورت میں چونکہ معلوم نہیں کہ وہ شراب خمر تھی یا دوسری تھی اس لیے احتیاط تو یہ ہے کہ اس سودے کو ختم کرکے (خواہ زبانی کلامی ہی ختم کیا جائے) از سر نو سودا کیا جائے اور بقیہ پیمنٹ کی جائے اور اس کے بعد مسجد کو قیمتاً یا ہدیتاً دینا چاہیں تو دیں  اور گنجائش اس بات کی بھی ہے کہ اسی حالت میں قیمتاً یا ہدیتاً مسجد کو دے دیں ۔

الدر المختار (5/ 56)

وإن بيعت بعين كعرض بطل في الخمر وفسد في العرض فيملكه بالقبض بقيمته

حاشية ابن عابدين (5/ 56)

قوله ( بطل في الخمر )

 قال في البحر والحاصل أن بيع الخمر باطل مطلقا وإنما الكلام فيما قابله فإن دينا كان باطلا أيضا وإن عرضا كان فاسدا

الدر المختار (5/ 90)

 و ) يجب ( على كل واحد منهما فسخه قبل القبض ) ويكون امتناعا عنه  ابن ملك ( أو بعده ما دام ) المبيع بحاله  جوهرة   ( في يد المشتري إعداما للفساد ) لأنه معصية فيجب رفعها  بحر

الدر المختار (6/ 454)

وصح بيع غير الخمر مما مر

قوله ( وصح بيع غير الخمر ) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان لكن الفتوى على قوله في البيع وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها

 ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية وكان ينبغي للمصنف ذكر ذلك قبيل الأشربة المباحة فيقول بعد قوله ولا يكفر مستحلها وصح بيعها وتضمن الخ كما فعله في الهداية وغيرها لأن الخلافع فيها لا في المباحة أيضا إلا عند محمد فيما يظهر مما يأتي من قوله بحرمة كل الأشربة ونجاستها تأمل

 قوله ( مما مر ) أي من الأشربة السبعة

بدائع الصنائع (5/ 115)

ويجوز بيعها عند أبي حنيفة مع الكراهة وعند أبي يوسف ومحمد لا يجوز أصلا  وجه قولهما أن محل البيع هو المال وإنه اسم لما يباح الانتفاع به حقيقة وشرعا ولم يوجد فلا يكون مالا فلا يجوز بيعها كبيع الخمر  وجه قول أبي حنيفة رضي الله عنه أن البيع مبادلة شيء مرغوب فيه بشيء مرغوب فيه قال الله تبارك وتعالى { أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى فما ربحت تجارتهم وما كانوا مهتدين } وقد وجد ههنا لأن الأشربة مرغوب فيها والمال اسم لشيء مرغوب فيه إلا الخمر مع كونها مرغوبا فيها لا يجوز بيعها بالنص الذي روينا والنص ورد باسم الخمر فيقتصر على مورد النص  وعلى هذا الخلاف إذا أتلفها إنسان يضمن عنده وعندهما لا يضمن.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved