• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدالتی خلع سے طلاق کاحکم اورطلاق بائن

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خلع کے بعد صلح ہوگئی تھی عدالت کی طرف سے خلع کا فیصلہ ختم کردیا گیا تھا بعد میں تقریبا ایک ماہ بعد میری ان کیساتھ تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد وہ مجھے ایک بار اپنے منہ سے طلاق کہہ گئے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں تم میری طرف سے فارغ ہو تم سے رجوع نہیں کرنا چاہتا سمجھ لو میں نے کہہ دیا تمہیں ایک طلاق ہو گئی اور کہہ رہے ہیں کہ کاغذ پہنچ جائے گا تمہیں۔میں تم سے رجو ع نہیں کرنا چاہتا میں ابھی اپنی امی کے گھر پر ہی ہوں۔عدالت کے فیصلے کے بعد مجھے تین ماہواری گذرچکی ہیں اور ایک طلاق کے درمیان پانچ سے چھ مرتبہ گذر گئی ہیں ایک طلاق زبانی دی ہے اور ایک کے کا غذ تیار کروارہے ہیں ۔

ان حالات میں میرے نکاح کی کیا حیثیت ہے اور دوبارہ صلح کس صورت میں ممکن ہے ؟ اگر بیوی کا شوہر کی طرف رجحان نہ ہو اور اس کا حق ادا نہ کر سکتی ہو تو اس صورت میں خلع لینا جائز ہے ؟عدالت کی ہر پیشی پر یہ حاضر ہوتے تھے اور جب آخری فیصلہ ہوا اس وقت بھی وہاں موجود تھے اور جج کے سامنے انہوں نے دستخط بھی کئے تھے، منہ سے اقرار نہیں کیا ۔

وضاحت مطلوب ہے:

(۱)خلع کے بعد جوصلح ہوئی، کیا نکاح ہوا تھا یا نہیں؟(۲)جو صلح کے بعد منہ سے طلاق دی اس کے الفاظ کیا تھے؟(۳)ایک طلاق کے بعد پانچ چھ ماہواریاں گزرگئی ہیں ،اس سے کیا مراد ہے؟(۴)صلح کیس کے دوران ہوئی یا بعد میں؟

جواب وضاحت :

عدالت میں کیس تین ماہ تک چلتا رہا عدالت نے طلاق کا فیصلہ دیا تو یونین کونسل میں تین ماہ تک کیس چلا اور اس کے آخر میں صلح ہو گئی فیصلہ سے قبل ہی پر یہ صلح نکاح کے بغیر تھی ۔عدالت سے جو طلاق کا فیصلہ ہوا اس کے بعد سے پانچ چھ ماہواریاں گزرگئیں تو خاوند نے یہ الفاظ کہے کہ’’تم میری طرف سے فارغ ہو ،میں تم سے رجوع نہیں کرنا چاہتا ،سمجھ لو میں نے کہہ دیا ،تمہیں ایک طلاق ہو گئی‘‘ اورکہاکہ’’ میں طلاق کے کاغذ بنوارہاہوں،تمہیں کاغذ پہنچ جائیں گے ایک پر میں نے دستخط بھی کر دیئے ہیں ۔‘‘اضافہ از دارالافتاء  شوہر سے فون پر رابطہ کرنے سے معلوم ہے کہ اس نے ایک خالی اسٹام پر دستخط کے کیے تھے جن پر صرف ڈائیوارس پیپر کے الفاظ لکھے ہوئے تھے باقی صفحہ خالی تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالتی خلع سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ جب عدالت نے خلع کا فیصلہ دیا تو مرد نے نہ اپنی زبان سے اس کو قبول کیا ا اور نہ خلع کے فیصلیپر دستخط کیے بلکہ جس بیان پر شوہر کے دستخط ہیں وہ تو یہ ہے کہ میں صلح کرنا چاہتا ہوں لہذا عدالت کا فیصلہ طلاق (خلع)شمار نہیں ہو ا۔اور عورت مرد کے نکاح میں ہی رہی پھر جب مرد نے کہاکہ’’ تو میری طرف سے فارغ ہے ،میں رجوع نہیں کرنا چاہتا،، تو یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جونہ گالی کا احتمال رکھتے ہیں اور نہ مطالبہ طلاق کو مسترد کرنے کا احتمال رکھتے ہیں بلکہ متمحض للجواب ہیں ۔چنانچہ غصہ کی حالت میں جب یہ الفاظ کہے تو اس سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی۔

پھر جو اس نے یہ الفاظ کہے کہ ’’سمجھ لو میں نے کہہ دیا طلاق ہوگئی ‘‘ان الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ محض سمجھ لینے سے طلاق نہیں ہوتی جب تک شوہر طلاق نہ دیدے، اسی طرح ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق نہیں ہوئی کہ ’’میں طلاق کے کاغذ بنوارہا ہوں تمہیں کاغذ پہنچ جائیں گے‘‘البتہ شوہر کے یہ الفاظ کہ ’’ایک پر میں نے دستخط بھی کردیئے ہیں ‘‘اس سے طلاق ہو گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو کونسی ہو گی اور کتنی ہو ں گی اس کا کوئی حتمی جواب اس تحریر کو دیکھ کر دے سکتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میںبیوی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے لہذا اگر میاں بیوی صلح کرنا چاہیںتو دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا جس میں مہر بھی ہو گا اور دوگواہ بھی ضروری ہیں اور اگر بیوی صلح نہ کرنا چاہے تو اس کابھی اسے حق حاصل ہے۔چنانچہ شامی (505-2-3/2درمختار(505-2-3/2)میں ہے:

 ونحو اعتدي ۔۔۔۔۔وسرحتک فارقتک لايحتمل السب والرد ففي۔۔۔ حالةالغضب توقف الاولان ان نوي وقع والا لا ۔

بخلاف الفاظ الاخيرين فانهاوان احتملت الطلاق لکنها لاتحتمل ماتحتمله المذاکرة من الرد والتبعيد۔۔۔فترجح جانب الطلاق ظاهرا۔وقال والثالث يتوقف عليها (اي النية) في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاکرة بلانية۔

الکنايات (لاتطلق بها)قضاء (الابنية او دلالة الحال)وهي حالة مذاکرة الطلاق اوالغضب

وفي البحرالرائق350/9

ولو قال الزوج داده انکار وکرده انکار لايقع وان نوي الوقوع لانه ليس باخبار لان معني قوله داده انکار افرضي انه وقع او احسبي فلايقع به شييء وانکار ۔۔۔معناه افرضي ،قدري

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved