• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

معلقہ (لٹکائے رکھنے)کی بنیاد پر نکاح فسخ کرانے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سائل افغان نژاد پاکستانی باشندہ ہے کی ایک ہمشیرہ ہے جسے شروع سے بوجہ لاولدی اپنے ماموں کو دیدیا تھا وہیں  پلی بڑی ہوئی سائل نے اپنی ہمشیرہ کا نکاح افغان نژاد ایک حافظ صاحب سے کیا ۔نکاح سے پہلے یہ بات باہمی معاہدے میں  طے پائی تھی کہ حافظ صاحب یہاں  لاہور میں  اپنے سسرال میں  رہیں  گے۔مگر باہمی اعتماد ی کی وجہ سے یہ بات تحریر میں  نہ آ سکی ۔نکاح میں  چار لاکھ روپے مہر مقرر ہوا تھا جس میں  سے ایک لاکھ سترہزار ادا کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ہمشیرہ اس نکاح پر بوجہ کوائف زوج پوری طرح خوش نہیں  تھی مگر ہماری روایت کے مطابق اس نے مجبور ہو کر قبول کرلیا نکاح جامعہ محمدیہ میں  پڑھا گیا۔نکاح کے بعد رخصتی کب کرنی ہے اس بابت کوئی سمجھوتہ نہیں  ہوا تھا (ویسے بھی سمجھوتے کے مطابق لڑکے نے رخصت ہو کر آنا تھا )ہمارے خیال میں یہ تھا کہ جب تقاضا ہو گا مناسب انتظامات کے ساتھ رخصتی کردی جائیگی ۔اس دوران کچھ عرصہ گزرگیا بندہ کے علم میں یہ بات آئی کہ مذکورہ حافظ صاحب لوگوں  سے شکوہ کناں  ہیں  کہ بندہ رخصتی نہیں  دے رہا ۔جبکہ امر واقعہ ایسا نہ تھا حتی کہ بات ہمارے استاذ جی حضرت مولانا مفتی محمدحسن صاحب دامت برکاتہم تک پہنچی ۔قصہ طویل ہے الغرض حافظ صاحب کا لہجہ سخت ہوتا گیا ۔اس دوران اندازہ ہوا کہ اس کا سلسلہ کہیں  اور جگہ چل رہا ہے ۔حضرت استاذ جی نے فیصلہ کیا کہ آپ رخصتی کردیں  ہم نے قبول کیااور اسے فرمایاکہ یہاں  (لاہورمیں  ) رہائش کاانتظام کرلیں  ،ان کے ساتھیوں  نے اس کاکچھ خرچہ بھی اپنے ذمہ لیا،مگر اس نے استاذ جی کے سامنے اقرار کرنے کے بعد باہر آکر انکار کردیا اور یہ کہا کہ استاذ جی نے تمہارے حق میں  فیصلہ کیا ہے استاذ جی نے تمہاری طرف داری کی ہے اور یہ فیصلہ ٹھیک نہیں  ہے۔ حالانکہ استاذ جی کے فیصلہ کے بعد ہم رخصتی کی تیاری کررہے تھے۔

اس دوان حافظ صاحب ہمارے گھر بھی آئے ہمشیرہ نے جب انہیں  دیکھا تو صاف انکار کردیا اور کہاکہ تم مجھے مارتے ہو مار دو میں  اس کے ساتھ نہیں  رہوں  گی ۔اس کے تنافر کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ حافظ صاحب نے ایک موقعہ پر میرے سے یہ کہا کہ مجھے رخصتی میں  دلچسپی نہیں  ہے ،میں  نہیں  آرہاتھا مجھے حاجی صاحب نے بھیجاہے،( اور اس کی وجہ شایدیہ تھی کہ اس کی بات دوسری جگہ چل رہی تھی) لیکن تمہاری ہمشیرہ نے مجھے میسج پر کہا ہے کہ مجھے رخصت کر کے لے جائو اس لیے میں  مجبور ہو کر آیا ہوں  ۔میں  نے ان سے کہا کہ اگر واقعتا ہمشیرہ نے یہ میسج کیا ہو گا تو میں  بالوں  سے پکڑ کر بھی تمہارے ساتھ کردوں  گا مگر بار بار مطالبے پر وہ یہ میسج نہ دکھا سکے اور بھاگ گئے ہمشیرہ کو یہ بات بہت گراں  گذری کہ میرے بارے میں  اس شخص نے کیسا پراپیگنڈہ کیا ہے بہر حال اب ہمشیرہ کسی قیمت رخصتی پر آمادہ نہیں  ہے ۔اس دوران معلوم ہوا کہ اس نے افغانستان جاکردوسری شادی کرلی ہے جس سے اس کے بچے بھی ہیں  اور وہ خود دوبئی میں  کام کاج کرتے ہیں ۔رابطے پر کہتے ہیں  کہ میں  نے طلاق نہیں  دینی اور نہ لے کر جانا ہے اور وہ قتل کی دھمکیاں  بھی دیتا ہے گالی گلوچ بھی کرتا ہے کبھی کہتا ہے کہ کاغذات بنائو اور دوبئی آجائو۔مگر ہمیں  اس پر اطمینان نہیں  ہے نیز ہمشیرہ کے دل میں  اس رشتے کا احترام قطعا باقی نہ رہا ہے ۔اگر ہم اب رخصتی کا نظم کربھی لیں  تب بھی اس کا رویہ برا ہونا تقریبا یقینی ہے۔

مفتی صاحب اندریں  حالات راہنمائی فرمائی کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے ؟واضح رہے کہ نکاح سرکاری طور رجسٹرڈ نہیں  ہوا۔نہ پاکستان میں  اور نہ افغانستان میں  اس لیے عدالتی چارہ جوئی کی بنیاد موجود نہیں  ۔نیز یہ بھی بتادیں  کہ اس صورت میں  حق مہر کیا ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے:

۱۔ کیا سائل کے لیے خلع کی صورت اختیار کرنا ممکن ہے ؟

۲۔ کیا سائل شوہر سے بالجبر یا بالرضا طلاق لے سکتا ہے؟

۳۔            اگر رابطہ کرنے پر خاوند یہ کہے کہ میں  بسانے پر آمادہ ہوں  تو کیا سائل رخصتی کروانے پر تیار ہے؟

جواب وضاحت:

۱۔ ممکن نہیں  ۔

۲۔ نہیں  لے سکتا لڑکا ہماری دسترس سے باہر ہے۔

۳۔            میں  نے ہمشیرہ سے پوچھا ہے اور قائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے مگر وہ کسی طور پر آمادہ نہیں  ہے جب وہ آمادہ نہیں  تو ہم کیسے کرسکتے ہیں  ؟وہ کہتی ہے میں  مرجائوں گی ،خود کشی کرلوں  گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  ذکرکردہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند باوجود استطاعت کے امساک بالمعروف یا تسریح بالاحسان یعنی بیوی کو اپنے ساتھ بسانے پریا طلاق یا خلع دینے پرآمادہ نہیں ،بلکہ وہ معاملے کو لٹکاکر رکھنا چاہتا ہے جبکہ بیوی کو معلقہ بناکررکھنا (یعنی نہ معروف طریقے کے مطابق اسے بسانا اور نہ ہی خلع یا طلاق دے کر اس کی جان چھوڑنا)ظلم ہے اورایسی صورت میں  نکاح فسخ کرکے ظلم کا رفع کرناقاضی کا فرض ہے ۔مذکورہ صورت میں  چونکہ نکاح سرکاری طور رجسٹرڈ نہیں  جس کی وجہ سے عدالت میں  مرافعہ ممکن نہیں  اس لیے کم از کم تین علماء پر مشتمل ایک جماعت اس معاملے کی سماعت کرکے نکاح فسخ کرسکتی ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ جماعت پہلے عورت کا موقف سنے گی اور پھر خاوند کو بلائے گی ۔اگر خاوند حاضر ہو یا اپنا موقف دینے پر آمادہ ہو تواس کو سنے بغیر فیصلہ نہ کرے گی اوراگر وہ باوجود اطلاع کے تعاون نہ کرے تو جماعت اس کی جانب سے ایک وکیل مقرر کرے گی جو اس کی جانب سے دلائل کی جوابدہی کرے گا۔ساری کاروائی کے بعد اگر عورت حق بجانب معلوم ہوتویہ جماعت نکاح فسخ کردے گی۔

(دیکھئے فقہ اسلامی :152)

نوٹ:         نکاح فسخ ہونے کی صورت میں  وصول شدہ حق مہر واپس کرنا ہو گا۔

في البحر :

وفي الذخيرة:فرق بين النفقة وبيان المهر فان الفرقة اذا جاء ت من قبل المرأة قبل الدخول يسقط المهر سواء کانت عاصية او محقة لان المهر عوض من کل وجه ولهذا لايسقط بموت احدهما فاذافات العوض بمعني من جهة من له العوض سقط۔

وايضافيه(130/3)

ثُمَّ قال الْإِمَامُ الْمَحْبُوبِي في التَّنْقِيحِ کُلُّ فُرْقَة جَاء َتْ من قِبَلِ الْمَرْأَة لَا بِسَبَبٍ من قِبَلِ الزَّوْجِ فَهي فُرْقَة بِغَيرِ طَلَاقٍ کَالرِّدَّة من جِهة الْمَرْأَة وَخِيارِ الْبُلُوغِ وَخِيارِ الْعَتَاقَة وَعَدَمِ الْکَفَاء َة وَکُلُّ فُرْقَة جَاء َتْ من قِبَلِ الزَّوْجِ فَهي طَلَاقٌ کَالْإِيلَاء ِ وَالْجَبِّ وَالْعُنَّة وَلَا يلْزَمُ علي هذا رِدَّة الزَّوْجِ علي قَوْلِ أبي حَنِيفَة وَأَبِي يوسُفَ لِأَنَّ بِالرِّدَّة ينْتَفِي الْمِلْکُ فَينْتَفِي الْحِلُّ الذي هو من لَوَازِمِ الْمِلْکِ فَإِنَّمَا حَصَلَتْ الْفُرْقَة بِالتَّنَافِي وَالتَّضَادِّ لَا بِوُجُودِ الْمُبَاشَرَة من الزَّوْجِ بِخِلَافِ الْإِبَاء ِ من جِهة الزَّوْجِ حَيثُ يکُونُ طَلَاقًا عِنْدَ أبي حَنِيفَة وَمُحَمَّدٍ لِأَنَّه لَا تَنَافِي بِدَلِيلِ أَنَّ الْمِلْکَ يبْقَي بِعَدَمِ الْإِبَاء ِ فَلِهذَا افْتَرَقَا اه

بدائع الصنائع(295/2)

فَالْمَهرُ کُلُّه يسْقُطُ بِأَسْبَابٍ أَرْبَعَة:مِنْها : الْفُرْقَة بِغَيرِ طَلَاقٍ قَبْلَ الدُّخُولِ بِالْمَرْأَة وَقَبْلَ الْخَلْوَة بِها، فَکُلُّ فُرْقَة قَدْ حَصَلَتْ بِغَيرِ طَلَاقٍ قَبْلَ الدُّخُولِ وَقَبْلَ الْخَلْوَة تُسْقِطُ جَمِيعَ الْمَهرِ ، سَوَاء ٌ کَانَتْ مِنْ قِبَلِ الْمَرْأَة أَوْ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ ، وَإِنَّمَا کَانَ کَذَلِکَ لِأَنَّ الْفُرْقَة بِغَيرِ طَلَاقٍ تَکُونُ فَسْخًا لِلْعَقْدِ ، وَفَسْخُ الْعَقْدِ قَبْلَ الدُّخُولِ يوجِبُ سُقُوطَ کُلِّ الْمَهرِ ؛ لِأَنَّ فَسْخَ الْعَقْدِ رَفَعَه مِنْ الْأَصْلِ وَجَعَلَه کَأَنْ لَمْ يکُنْ ، وَسَنُبَينُ الْفُرْقَة الَّتِي تَکُونُ بِغَيرِ طَلَاقٍ وَاَلَّتِي تَکُونُ بِطَلَاقٍ إنْ شَاء َ اللَّه تَعَالَي فِي مَوْضِعِها ۔۔۔۔

الحجة علي اهل المدينة(504/3)

محمد قال قال ابو حنيفة رضي الله عنه کل فرقة بين الرجل وامرأتة وقعت من قبل الرجل فهي طلاق إلا في خصلة واحدة اذا ارتد عن الاسلام لم تکن ردته بطلاق وکل فرقة جاء ت من قبل المرأة فليست بطلاق بوجه من الوجوه لان الطلاق بيد الرجل لا بيد المرأة وقال اهل المدينة کل نکاح يفسخ علي کل حال ولا يستقيم ان يحصر علي کل حال فان فسخه وفرقته ليس بطلاق وکل نکاح کان اتيانه الي المرأة او إلي الولي ان شاء من ولي ذلک منهما واثبته اقيم عليه وان شاء  نقض وفرق بينهما وفرقته اذا هو فرق تطليقه واحدة وليس لمن ملک ذلک منهما ان تبين المراة ممن نکحها بأکثر من تطليقة واحدة ۔۔

الهداية شرح البداية(45/2)

وکل فرقة جاء ت من قبل المرأة بمعصية مثل الردة وتقبيل ابن الزوج فلا نفقة لها لأنها صارت حابسة نفسها بغير حق فصارت کما إذا کانت ناشزة بخلاف المهر بعد الدخول لأنه وجد التسليم في حق ا لمهر بالوطء وبخلاف ما إذا جاء ت الفرقة من قبلها بغير معصية کخيار العتق وخيار البلوغ والتفريق لعدم الکفاء ة لأنها حبست نفسها بحق وذلک لا يسقط النفقة کما إذا حبست نفسها لاستيفاء المهر

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved