• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑکے نے طلاقنامہ اپنی رضامندی سے تیارکرایا مگر دستخط نہیں کیے ،ایسی طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں  علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ لڑکا پاکستا ن سے باہر ہے اس نے فون پر اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ یہ طلاق نامہ اس کی مرضی سے دیا گیا ہے۔ اب جبکہ وہ کہتا ہے کہ اس پر دستخط میرے نہیں  لیکن دستخط لڑکے کی اجازت سے کئے گئے ۔

حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کاغذات بذریعہ واٹس ایپ اس کو دیکھائے گئے تو اس نے کہا کہ یہ میری مرضی سے دیئے گئے ہیں  اور میں  اس پر رضامند تھا لیکن اب وہ دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے ۔آیا رجوع کی گنجائش موجود ہے ؟جبکہ وہ بار بار اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ طلاق میں  نہیں  دینا چاہتا تھا لیکن لڑکی کا بات نہ ماننا اور میرے والدین کے گھر نہ جانا اور یا ان کی خدمت وغیرہ نہ کرنا اس بات کا سبب بنی ۔لہذا اب اگر اس نے اپنے منہ سے لفظ طلاق نہیں  کہا یا اس کاغذ پر دستخط نہیں  کیے توکیا طلاق ہو گئی اور وہ بھی تین کی تین یا دور ان عدت رجوع کی گنجائش موجود ہے ۔اگر ہے تو سائل کو کیا کرنا چاہیے تفصیل سے جواب عنائت فرمائیں  ۔آپ کی بہت مہربانی ہو گی

نوٹ:         سوال لڑکی والوں  کی طرف سے ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:۱)کیا خاوند نے طلاقنامہ پڑھا تھا؟۲)اگر پڑھا نہیں  تو کیا اسے اس بات کا علم تھا کہ اس میں  تین طلاق لکھی ہیں ؟۳)نیز طلاقنامے کی تیاری سے پہلے خاوند اور اس کے گھر والوں  (جنہوں  نے طلاقنامہ کی تحریر تیار کروائی تھی ان)کے درمیان اس بابت کیا گفت وشنید ہوئی تھی؟

جواب وضاحت:

۱)یہ کاغذات میری مرضی سے تیار کیئے گئے اور میری اجازت سے اس پر دستخط ہوئے ہیں ۔میں  نے پڑھا تھا اور پتہ بھی تھا اس میں  کیا لکھا ہے۔۲)اصل میں  وہ حضرت بات یہ تھی کہ میں  دوبئی میں  رہتا ہوں  اور میرے اوپر کچھ قرض ہے اور میری اہلیہ مجھے کہتی تھی کہ آپ مجھے ساتھ رکھیں  میں  نے کہا کہ ابھی حالات نہیں  ہیں  ۔میں  جب حالات درست ہوں  گے تو پھر رکھ لوں  گا ساتھ۔ اس بات پر وہ میکے چلی گئیں  میں  نے آنے کا کہا تو انہوں  نے کہا چاہے آپ مجھے چھوڑ دیں  میں  اس گھر میں  نہیں  آئوں  گی وغیرہ وغیرہ پھر میں نے تنگ آ کر یہ قدم اٹھایا اور گھر والوں  کو طلاق نامہ تیار کرنے کا کہا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  اگر چہ خاوند نے طلاقنامہ خود نہیں  لکھا اور نہ خود اس پر دستخط کیے ہیں  لیکن چونکہ طلاق نامہ اسی کی مرضی ومنشا کے مطابق لکھا گیا ہے اور دستخط بھی اس کی اجازت سے ہوئے ہیں  اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ طلاق نامے کا مضمون کیا ہے ۔اس لیے طلاقنامہ خاوند کی جانب منسوب ہونے میں  کوئی شبہ نہیں ۔لہذا طلاقنامے کی رو سے تینوں  طلاق واقع ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved