• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی مریض کےطلاق دینے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میری شادی کو چار سال ہو گئے ہیں میرے شوہر تین سال تک ٹھیک رہے پھر ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔یہ ٹینشن میں رہنے لگے اور پھر کبھی اچھے ہوتے ہیں میرے ساتھ تو کبھی غصے میں مار پیٹ بھی کرتے ہیں ۔کاروبار بھی ختم ہوا ہے اس کی وجہ سے بھی ٹینشن لیتے ہیں ۔میری دو بیٹاں ہیں ان کا ذہنی علاج ہو رہا ہے اسی حالت میں انہوں نے پانچ دفعہ طلاق کا لفظ استعمال کیا ہے الفاظ یہ تھے’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ‘‘ میں آپ سے معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ شریعت کے لحاظ سے اب مجھے کیا کرنا چاہیے ۔میری والدہ غریب ہیں اور وہ حلالہ کابھی کہتی ہیں ۔اب آپ بتائیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

نوٹ:         خاوند اس وقت بہت غصے میں تھے اس سے پہلے بھی وہ غصے میں رہتے تھے لیکن اس دفعہ کچھ زیادہ ہی غصہ میں تھے ان کے والد صاحب نے ان کو تھپڑمارا اور ناراض ہوئے تو انہوں نے کہا آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے ۔ایک دن ہم سو کر اٹھے ناشتہ منگوانا تھا میں نے نان منگوانے کے لیے ان کو آواز دی اور نان لانے کو کہا ۔

تو روز کے معمول کے مطابق انہوں نے مجھ پر گالم گلوچ شروع کردی تیری ماں ۔۔۔تیری بہن۔۔الفاظ بہت گندے تھے مجھے خود بھی نہیں آتے میں منع کرتی رہی گالیاں نہ دو امی میرے گھرآئی ہوئی ہیں وہ کیا سوچیں گی پھر میری والدہ سامنے آ گئیں وہ بیت الخلاء میں تھیں تو ان سے غصے میں بولنے لگے کہ اپنی بیٹی کو لے جائو میری امی خاموش رہیں وہ اس کی ذہنی حالت سے باخبر تھیں بار بار وہ میری امی کو کہتا رہا کہ اپنی بیٹی کو لے جائو آگے سے میری امی نے کہا میں اپنی بیٹی کو لے جاتی ہوں توں اپنی تیاں (بیٹیاں )اپنے پاس رکھ اس کو سن کر اس کو مزید غصہ آیا اور میری امی کو بولنا اور گالیاں دینا شروع ہو گیا اور چپ ہی نہ ہو رہاتھا۔

میری والدہ نیچے میرے سسر کے پاس چلی گئیں کہ اگر آپ کے بیٹے کی ذہنی حالت ایسی ہے تو اس کا علاج کیوں نہیں کرواتے  اس کو لے جائیں پاگل خانے میں ۔تو اسی وقت میرا میاں بھی ساتھ نیچے سسر کے پاس آگیا اور اونچی اونچی گالیاں دینے لگا۔باپ نے روکا وہ باپ سے لڑ پڑا کہ تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا باپ کو بھی گالیاں دیتاہوا باہر گلی میں چلا گیا،گلی میں شور مچانا ،گالیاں دینا شروع ہو گیا۔باپ نے تھپڑ مارا بیٹے نے بھی مار پیٹ شروع کردی۔پھر سب نے ان کو چھوڑایا اس وقت میری ماں کو کہنے لگا ’’کہ گشتی ماں دی تیے (بیٹی)لے جا اپنی گشتن دی تیھی نوں ۔پھر کہنے لگا کہ’’ جا میں نے تیری بیٹی نوں طلاق دی جا میں نے تیری بیٹی نوں طلاق دی جا میں نے تیری بیٹی کو طلاق دی جا میں نے تیری بیٹی نوں طلاق دی جا میں نے تیری بیٹی کو طلاق طلاق دی ‘‘ یہ لفظ ایک ہی بار پانچ مرتبہ کہے پھر غصہ میں بولنا شروع ہو گئے اور گھر چلا گیا اوپر کمرے میں آیا اور اپنے کپڑے بیگ میں رکھے اور نکل گئے کہ میں اس گھر سے جارہا ہوں ۔

میں والدہ کے ساتھ جمعہ7-9-18کو والدہ کے گھر آگئی تو اتوار کو وہ میری امی کے گھر خود آیا دونوں بچیوں سے ملا مجھ سے بات نہیں کرتا تھا بس گھوریاں ڈال کر دیکھتا تھا ۔اسی طرح ایک ہفتہ گذر گیا۔ایک ہفتے کے بعد بغیر کسی وجہ کے میری والدہ کے گھر (گلی میں جاکر اس نے وہی تماشا شروع کردیا گالیاں دیں اونچا اونچا بولنا شروع کردیا اور خود ہی کہنے لگا کہ میں سب کو بتائوں گا کہ میں پاگل ہوں )مفتی صاحب! جب اس کے دماغ کی ایسی حالت ہوتی تھی کہ وہ بغیر کسی وجہ کے اونچا اونچا بولتا گالیاں دیتا تو میں اس کو گولی دے کر سلانے کی کوشش کرتی تھی ۔

اہم نکات

شادی کوعرصہ چار سال ہوئے نکاح شادی سے ایک سال پہلے ہوا رشتہ جب ہوا تو ہمیں واضح معلوم تھا کہ یہ پاگل ہے ۔تین چار بار شادی سے پہلے پاگل خانے ہو کر آیا تھا ایک دو دن رہتا پھر بھاگ آتا تھا ۔

ماں کی وفات جو شادی سے ایک ماہ پہلے ہوئی اس وقت بھی ذہنی حالت خراب ہوئی لیکن ہسپتال جانے کے بجائے پرانی دوائیاں کھاتا رہا ۔یہ ہسپتال نہیں جاتا تھا جب حالت خراب ہوتی تو میں یا یہ خود پرانی دوائی (Beezon)گولی کھلا دیتے۔

یہ علاج کرانے سے بھی ہمیشہ ڈرتا ہے کیونکہ وہ لوگ مجھے رکھ لیں گے یعنی ایڈمٹ کرلیں گے۔یہ شادی سے پہلے بھی ایسے ہی لڑتا تھا اپنے رشتہ داروں سے ۔بڑی بڑی چھریاں چاقو لے کر ان کو مارنے لگتا۔میرے خاوندکے سب رشتہ دار گواہ ہیں مریم یعنی میرے پیچھے بغیر کسی وجہ مجھ پر حملہ کرتا ہے زود وکوب، مارنا گالی وغیرہ دینا۔اس کا روز کا معمول تھا کہ مجھے گالیاں دیتا مارتا میں اس کو گولی کھلا کر سلانے کی کوشش کرتی کبھی یہ گولی کھاتا کبھی نہ کھاتا۔

اس پردس بارہ لاکھ کا قرضہ بھی ہے پہلے آمدنی لاکھوں میں تھی لیکن اب یہ کام نہ ہونے کے برابر ہے ذریعہ آمدنی کم ہے سارے گھر کی (میری ،بیٹیوں کی،دیور اور سسر )کفالت ان کے ذمہ ہے اس کی ہر وقت ٹینشن ۔

جب اس نے یہ الفاظ کہے تو بھی ان دنوں یہ گولیاں کھا رہا تھا لیکن اس دن گولی نہ کھائی تھیں ۔ دوائیوں کی پرچی ساتھ لف ہے؟مفتی صاحب !اب وہ روز میری امی کے گھر آرہا ہے معافی مانگ رہا ہے اگر میں گھر واپس نہ گئی تو یہ مزید ٹینشن میں آکر کچھ کرنہ لے اس لیے مجھے آپ کے جواب کی جلدی ہے کیونکہ مجھے ڈرہے یہ غصہ میں کچھ کرنہ لے خود اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا دے یا مجھے اور میری بچیوں کو ۔میرا شوہر ذہنی توازن کھوچکا ہے اور راستہ دیکھنا بھی بھول گیا تھا

وضاحت مطلوب ہے:

خاوند کا اس بارے میں موقف کیا ہے؟

خاوند کا بیان:

میں دماغی مریض ہوں جب طلاق کے الفاظ بولے تھے اس وقت میں ذہنی ٹینشن میں تھا ،میں طلاق دینا نہیں چاہتا تھا مگر میں باربار کی غلطیوں سے تنگ آگیا تھا۔اور روز روزبدزبانیوں اور بدکلامیوں سے میری برداشت ختم ہو گئی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاوند کا ذہنی مریض ہونا معروف ہے اور طلاق کے وقت بھی وہ بیماری کے زیر اثر ہے اس لیے اس حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ۔لہذابیوی خاوند کے ساتھ جاسکتی ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved