• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حنفی امام کا مقتدیوں کو سورت فاتحہ مکمل کرنے کاوقت دینا

استفتاء

مکرمی و محترمی جناب مفتی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

امید واثق ہے مزاج عالیہ بفضلہ تعالیٰ بخیر و عافیت ہوں گے۔ ایک اہم مسئلہ کے بارے میں آپ کی رائے درکار ہے۔

جہری نمازوں میں امام صاحب سورہ فاتحہ اور آمین کہنے کے بعد اگلی سورت شروع کرنے میں بہت زیادہ دیر لگا دیتے ہیں، حتی کہ بعض اوقات محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید سورت ملانا بھول ہی گئے ہیں اور لقمہ دینے پر طبیعت آمادہ ہونے لگتی ہے۔ تین چار بلکہ چھ سات دفعہ سبحان اللہ کہنے سے زیادہ وقفہ تو عام معمول ہے۔

جبکہ کتابوں میں اور majzoob.com میں بھی لکھا ہے کہ دو واجبات کے درمیان تین دفعہ سبحان اللہ کہنے سے زیادہ وقفہ ہو جائے تو سجدہ سہو لازم آتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب چند غیر مقلد مقتدیوں کو اپنی اپنی سورہ فاتحہ مکمل کرنے کا وقت دیتے ہیں۔ غیر مقلد حضرات کی رعایت کرنا اپنے واجب سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں، حالانکہ امام صاحب خود بھی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور مقتدی حضرات میں بھی احناف کی اکثریت ہے۔

مذکورہ صورت میں مقتدیوں کے لیے کیا حکم؟

1۔ کیا اسی امام صاحب کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے رہیں؟

2۔ اگر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے تو  اس کی دو صورتیں ہیں:

i۔ امام صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی جائے، جو بظاہر ایک مشکل کام ہے۔

ii۔ جہری نمازوں کے لیے کوئی اور مسجد تلاش کی جائے۔

3۔ جو نمازیں اب تک پڑھ چکے ہیں، کیا ان کو لوٹانا واجب ہے۔

ایک اور غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ صرف مقتدیوں کی وجہ سے داخل نماز کوئی فعل (جیسے سورہ فاتحہ اور سورت ملانے میں وقفہ زیادہ کر دینا) کرنا احناف کے مطابق نہ واجبات نماز میں سے ہے اور ہی سنن اور مستحبات میں کہیں اس بات کا تذکرہ ہے، تو کیا امام کا یہ فعل اپنے کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنے کے زمرے میں نہیں آئے گا؟ کیا اس طرح کرنے سے نماز باقی رہتی ہے؟

ایک مزید گذارش: میں نے رائیونڈ میں برسر منبر بیان میں یہ سنا ہوا ہے کہ نماز کی جماعت ہو رہی تھی امام نے اس لیے رکوع لمبا کر دیا تاکہ پیچھے سے آنے والے کسی مقتدی کو رکوع مل جائے تو علماء نے کہا ہے کہ ایسا امام کافر ہو گیا، اور بعض دوسرے علماء نے کہا کہ کافر ہوا تو نہیں البتہ ہو جائے گا۔

کیا متذکرہ بالا شکل میں اور استفتاء میں دیے گئے سوال میں مماثلت نہیں ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی حنفی امام کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر مقلد مقتدیوں کی رعایت میں یا ویسے سورہ فاتحہ کے بعد آمین اور بسم اللہ کہنے کے بعد سورت ملانے میں تین مرتبہ سبحان اللہ کی مقدار تک تاخیر کرے کیونکہ ایسا کرنا حدیث ”إنما جعل الإمام ليؤتم به “ کے خلاف ہے۔اتنی مقدار تاخیر کرے گا تو اس کی نماز ناقص ہو گی، اور اس کے لیے سجدہ سہو کرنا بھی کافی نہیں ہو گا کیونکہ سجدہ سہو تب واجب ہوتا ہے جب تاخیر بھول سے ہو۔

مذکورہ صورت میں عمداً اتنی تاخیر کی وجہ سے امام کی نماز ناقص ہے، جب امام کی نماز ناقص ہے تو مقتدیوں کی نماز بھی ناقص ہو گی۔ لہذا اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ نماز پڑھنی پڑے گی۔

1۔ مقتدیوں کے لیے حکم یہ ہے کہ  جب تک امام کی یہی حالت ہو ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔

2۔ مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ نماز واجب الاعادہ ہے۔

3۔ جہری نمازوں میں جب تک امام کی یہی حالت ہو تو اگر آسانی سے اہل حق کی دوسری مسجد میں جا سکیں تو جائیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اکیلے نماز پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔

4۔ جو جہری نمازیں  اس امام کے پیچھے پڑھ چکے ہیں چونکہ وہ سب ناقص ہیں اس لیے ان سب کا لوٹانا ایک قول کے مطابق ضروری ہے۔ اور ایک قول کے مطابق مستحب ہے لہذا اگر لوٹانے میں دشواری ہو تو مستحب والے قول پر عمل کر سکتے ہیں۔

باقی کفر والی بات درست نہیں۔

حاشيۃ الطحطاوی على مراقي الفلاح (ص: 460) میں ہے:

باب سجود السهو: (يجب) …. (سجدتان) …. (لترك واجب) بتقديم، أو تأخير، أو زيادة أو نقص.

و في حاشيته: قوله: (لترك واجب) أي من واجبات الصلاة الأصلية…. ومن الواجب تقديم الفاتحة على السورة وأن لا يؤخر السورة عنها بمقدار أداء ركن.

حاشيۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 462) میں ہے:

(وإن كان تركه) الواجب (عمدا أثم ووجب) عليه (إعادة الصلاة) تغليظا عليه (لجبر نقصها) فتكون مكملة وسقط الفرض بالأولى وقيل تكون الثانية فرضا فهي المسقطة (ولا يسجد في) الترك (العمد للسهو) لأنه أقوى.

الفتاوى الہندیہ (1/ 126) میں ہے:

 إن ترك ساهيا يجبر بسجدتي السهو وإن ترك عامدا لا، كذا فی التتارخانية وظاهر كلام الجم الغفير أنه لا يجب السجود في العمد وإنما تجب الإعادة جبرا لنقصانه كذا في البحر الرائق.

العرف الشذی (1/ 366) میں ہے:

( يتبع سكتات الإمام ) قال الشافعية : المستحب للإمام أن يسكت ليأتي المقتدي بالفاتحة ، وأقول : إنه خلاف قواعد الشريعة فإن الشريعة تنبئ بـ ( إنما جعل الإمام ليؤتم به ) إلخ ، وتجعل الشريعة الإمام متبوعاً ، ولزم على ما قالوا كونه تابعاً

فتاویٰ شامی (630/2، باب قضاء الفوائت) میں ہے:

والاعادة فعل مثله وفي وقته لخلل غير الفساد لقولهم: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد: أي وجوبا في الوقت، وأما بعده فندبا.

و في الشامية تحت قوله: ( أي وجوبا في الوقت الخ ) لم أر من صرح بهذا التفصيل سوى صاحب البحر  حيث استنبطه من كلام القنية حيث ذكر في القنية عن الوبري أنه إذا لم يتم ركوعه ولا سجوده يؤمر بالإعادة في الوقت لا بعده ثم ذكر عن الترجماني أن الإعادة أولى في الحالين ا هـ  قال في البحر فعلى القولين لا وجوب بعد الوقت .

 فالحاصل أن من ترك واجبا من واجباتها أو ارتكب مكروها تحريميا لزمه وجوبا أن يعيد في الوقت فإن خرج أثم ولا يجب جبر النقصان بعده فلو فعل فهو أفضل ا هـ ……………………….

أقول فتلخص من هذا كله أن الأرجح وجوب الإعادة وقد علمت أنها عند البعض خاصة بالوقت وهو ما مشى عليه في التحرير وعليه فوجوبها في الوقت ولا تسمى بعده إعادة وعليه يحمل ما مر عن القنية عن الوبري وأما على القول بأنها تكون في الوقت وبعده كما قدمناه عن شرح التحرير وشرح البزدوي فإنها تكون واجبة في الوقت وبعده أيضا على القول بوجوبها ، وأما على القول باستحبابها الذي هو المرجوح تكون مستحبة فيهما وعليه يحمل ما مر عن القنية عن الترجماني وأما كونها واجبة في الوقت مندوبة بعده كما فهمه في البحر وتبعه الشارح فلا دليل عليه وقد نقل الخير الرملي في حاشية البحر عن خط العلامة المقدسي أن ما ذكره في البحر يجب أن لا يعتمد عليه لإطلاق قولهم كل صلاة أديت مع الكراهة سبيلها الإعادة ا هـ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved