• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا پھر اسی کی بیٹی سے شادی کرلی، کئی سال بعد پتہ چلا کہ یہ نکاح جائز نہیں تھا اب کیا حکم ہے؟

استفتاء

مفتی صاحب ! میرے ایک دوست کی عمر 50 سال سے اوپر ہے، شادی سے پہلے اس کا  ناجائز تعلق ایک عورت کے ساتھ تھا، بعد میں اس عورت کی بیٹی سے اسکی شادی ہو گئی، اسے اب پتہ چلا ہے کہ ایسی عورت کی بیٹی سے نکاح نہیں ہوتا، لاعلمی سے نکاح ہوا ہے۔ اب آپ بتائیں وہ کیا کرے؟ اس کی بیوی کا اور کوئی  سہارہ نہیں ہے، شادی کو بیس پچیس سال ہوگئے ہیں، اسکے پانچ بچے بھی ہیں اب اس کیلیے کوئی راستہ بتائیں۔ شکریہ۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: ناجائز تعلق سے کیامراد ہے؟

جوابِ وضاحت: ناجائز تعلق سے مراد زنا ہے۔

بواسطہ: مولانا کاشف ندیم صاحب، جامعہ محمدیہ، چوبرجی، لاہور

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب آپ کے دوست نے شادی سے پہلے مذکورہ عورت سے زنا کیا تھا تو  اسی وقت اس عورت کی بیٹی آپ کے دوست پر حرام ہوچکی تھی اور بعد میں جو نکاح کیا گیا وہ ناجائز اور فاسد ہوا تھا لہٰذا شوہر کو چاہیے کہ نکاح کو فسخ کرکے فورا بیوی کو علیحدہ کردے۔ نکاح فسخ کرنے کے لیے شوہر بیوی کو زبان سے کہہ دے کہ میں نے تمہیں چھوڑدیا، یا طلاق دے دے یا میاں یا بیوی میں سے کوئی ایک کہہ دے کہ ’’میں نے اپنا نکاح جو فلاں شخص سے ہوا تھا، فسخ کیا‘‘

ہدایہ (فصل فی بیان المحرمات) میں ہے:

قال (ومن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وبنتها)                                  

امداد الاحکام (2/267) میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین صورت مسئولہ میں کہ آٹھ سالہ نابالغہ لڑکی کا نکاح اس کے والد کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی والدہ نے ایسی صورت میں کہ ایک شخص سے اس کا ناجائز تعلق ہوگیا تھا اسی سے اپنی لڑکی کا نکاح کردیا، لڑکی اب معمرہ ۱۵ سالہ ہے ۔۔۔۔۔ از روئے شرع شریف لڑکی خاوند کے نکاح میں رہ سکتی ہے یا نہیں، نیز خاوند سے اسے طلاق لینے کی ضرورت ہے یا بغیر طلاق خاوند سے جدا ہوگئی؟

الجواب: جب لڑکی کی ماں کا ناجائز تعلق اپنے داماد سے قبل نکاحِ بنت ہوچکا ہے تو اس صورت میں لڑکی کا نکاح اس شخص سے صحیح نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب نکاح صحیح نہ ہوا تو لڑکی کو شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں بلکہ چند آدمیوں کے سامنے اسے اتنا کہہ دینا چاہئے کہ میں اپنے نکاح کو جو فلاں شخص سے ہوا تھا فسخ کرتی ہوں اور بہتر یہ ہے کہ شوہر کے سامنے بھی یہ بات کہہ دے گو ضرورت نہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔

قال في الخلاصة ……. والمتاركة في النكاح الفاسد بعد الدخول لا يكون إلا بالقول تركتك أو خليت سبيلك إلى أن قال وفي الحيط لكل واحد فسخ هذا العقد بغير محضر من صاحبه قبل الدخول وبعد الدخول ليس لكل واحد حق الفسخ الا بحضرة صاحبه كالبيع الفاسد وعند بعض المشائخ لكل واحد حق الفسخ بعد الدخول وقبله….. الخ (ج2، ص41)‘‘

در مختار مع رد المحتار (4/267) میں ہے:

( و ) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه ودخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصية

قال في رد المحتار [4/269]: والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved