• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے الفاظ ’’میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، میری طرف سے فیصلہ ہے‘‘ کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو سال  پہلےہمارا میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ہو ا جس میں میں نے یہ الفاظ بول دیے کہ ’’میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘ پھر تین چار گھنٹے بعد میں نےکہا کہ ’’میری طرف سے فیصلہ ہے‘‘اس بارے میں ہم نے جامعہ اشرفیہ سے فتوی لیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ دو طلاقیں ہو گئی ہیں،آپ کے پاس ایک طلاق کا حق باقی ہے۔اس وقت میں نے رجوع کر لیا تھا لیکن دوبارہ نکاح نہیں کیا تھا، اب دو ماہ پہلے دوبارہ ہمارا جھگڑا ہوا تو میری اہلیہ نے کہا میں نے چلے جانا ہے، میں نے کہا کہ ’’جاؤ،چلی جاؤ، میری طرف سے فارغ ہو‘‘ یہ الفاظ بولتے وقت غصے کی حالت تھی۔راہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

نوٹ: بیوی کو اس بیان سے اتفاق ہے، بیوی کے والد سائل کے ساتھ دارالافتاء آئے تھے ان کو بھی اس بیان سے اتفاق ہے۔

رضوان (شوہر)

ذوالفقار علی (لڑکی کا والد)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: آئندہ شوہر کو  صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہو گا۔

توجیہ: شوہر کے ان الفاظ سےکہ ’’میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘ دو رجعی طلاق واقع ہو گئیں ۔ پھر تین چار گھنٹے بعد جب شوہر نے کہا کہ  ’’میری طرف سے فیصلہ ہے‘‘ تو ان الفاظ سے سابقہ دو رجعی طلاقیں بائنہ بن گئیں کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق میں سے ہیں، اور ہماری تحقیق میں صریح طلاق کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا صرف وصف میں اضافہ ہوتا ہے یعنی سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن جاتی ہے ۔ پھر دو سال بعد جب شوہر نے کہا کہ ’’جاؤ،چلی جاؤ، میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ عدت گزر چکی تھی، اور اگر عدت باقی بھی ہوتی تو البائن لا یلحق البائن کے تحت کوئی طلاق واقع نہ ہوتی۔

درمختار (4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

خلاصۃ الفتاوی (2/86)میں ہے:

لو قال لامرأة أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا.

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے  ’’ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان‘‘

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

فتاوی شامی(5/42) میں ہے:

وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved