• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رشتہ داروں کےدباؤمیں آکرطلاقنامے پر دستخط کرنے کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مذکورہ طلاقنامے پر مجھ سے زبردستی دستخط کروائے گئے تھے، البتہ میں نے طلاقنامہ اچھی طرح پڑھنے کے بعد دستخط کیے تھے،اس طلاقنامے کے علاوہ دو پیپرز پر یونین کونسل میں بھی دستخط کیے ہیں،رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

طلاقنامے پر دستخط کرنے کے لئے آپ کو کس نے مجبور کیا تھا؟

جواب وضاحت: میرے ہم زلف اور کچھ رشتہ داروں نے مجبور کیا تھا کہ ہمارے ساتھ وکیل کے پاس چلو اورطلاقنامے پردستخط کرو،  ورنہ ہم خلع کے لئے عدالت میں جائیں گے، تو میں نے اس وجہ سے مجبورا طلاقنامے پر دستخط کر دیے تھے۔

طلاق نامہ کی عبارت :

منکہ مسمی آصف مصطفی ولد غلام محمد قوم پٹھان سکنہ وارڈ نمبر 2 نزد بان فیکٹری کوٹ ادو باہوش و حواس، بلا جبر و اکراہ، باتندرست بدن اس طور پر تحریر کر دیتا ہوں بوجہ گھریلو ناچاقی اپنی بیوی سعدیہ بتول  دختر مطیع الرحمان قوم پٹھان سکنہ وارڈ نمبر 142 کوٹ ادو کو طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، دیکر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ نے رشتہ داروں کے دباؤمیں آ کردستخط کیے ہیں لیکن چونکہ یہ دباؤ ایسا نہیں جوشرعا قابل اعتبار ہو لہذا مذکورہ صورت میں طلاقنامےمیں مذکور ان الفاظ سے کہ ’’ طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (9/217) میں ہے:

وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ.

(قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو.

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved