- فتوی نمبر: 25-28
- تاریخ: 09 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
جناب میرا سوال ہے کہ ایک آدمی ہے اس نے قرآن حفظ کیا ہے لیکن وہ نماز کی پرواہ نہیں کرتا اور صبح کی نماز نہیں پڑھتا کبھی کبھار مسجد آتا ہے اور اسی مسجد میں ایسا شخص بھی موجود ہے جو پانچ وقت کی نماز کا پابند ہے اور اس کو دو تین سپارے بھی یاد ہیں۔ اب امام کس کو بنانا ہے؟ مہربانی کر کے تفصیل کے ساتھ آگاہ کریں شکریہ۔
وضاحت مطلوب ہے کہ:
1.کیا آپ کی مسجد میں مستقل کوئی امام نہیں ہے؟
2.ان حافظ کے بارے میں آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ نماز کی پرواہ نہیں کرتے؟
3.جن صاحب کودو تین پارے یادہیں کیا وہ مکمل شریعت کے پابند ہیں؟مثلا سنت کے مطابق داڑھی وغیرہ۔
4.اس جھنجھٹ سے بچنے کے لیے آپ امام کیوں نہیں رکھ لیتے؟
5.مسجد میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ کیا آپ نے لوگوں کو طے کرنا ہوتا ہے کہ کون نماز پڑھائے گا اور کون نہیں؟
جواب وضاحت:
1.جی ہماری مسجد میں کوئی امام نہیں ہے۔
2.جن حافظ کے بارے میں میں کہہ رہا ہوں ان صاحب کو میں خوب جانتا ہوں۔
3.جو بڑی عمر کے ہیں وہ پانچ وقت کے نمازی ہیں ظاہر میں بالکل سنت کے مطابق ہیں باطن میں اللہ ہی جانتا ہے۔
4.ہم امام کی تنخواہ نہیں دے سکتے۔
- مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب اپنے گھر کے لوگ ہیں کوئی غیر نہیں یہ میری اپنی انفرادی سوچ ہے کہ ایسے جوان جو کئی دنوں سے مسجد آتے نہیں ہیں اور جب مسجد آجائیں تو کو شش کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھاؤں تو کیا ایسوں کو امام بنانا مکروہ نہیں ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ بیان اگر درست ہے تو حافظ کی بجائے اس شخص کو امام بنانا چاہیے جس کو دو تین سپارے یاد ہیں بشرطیکہ وہ قرآن صحیح پڑھتا ہو۔
حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح(ص:302)میں ہے:"وكره إمامة العبدوالأعمى والأعرابي وولد الزناالجاهل و الفاسق”وفي حاشيته:(فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة)تبع فيه الزيلعي ومفاده كون الكراهة في الفاسق تحريميةدر مختارمع ردالمحتار(2/350)میں ہے:’’(ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة)قال ابن عابدين: أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved