• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چھوٹے گاؤں میں جاری شدہ جمعہ کو بند کرنا

استفتاء

ہمارے گاؤں میں تقریباً سال ہو گیا ہے کچھ غیر مقلدین حضرات نے جمعہ کی نماز شروع کروائی ہوئی ہے اگرچہ امام صاحب ہمارے خیالات کے ہیں۔ گاؤں میں 60-70 گھر ہیں، بالغ مردوں کی تعداد تقریبا 300 سے 400 تک ہے، گھر کم ہیں لیکن فیملیاں بڑی بڑی ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک ہی مسجد ہے اور ایک پرچون کی چھوٹی دکان ہے، باقی کسی قسم کی کوئی دکان نہیں، اور نہ ہی اور کوئی سہولیات موجود ہیں، زیادہ تر گاؤں میں ان پڑھ لوگ ہیں اس لیے سارے ہی جمعہ کی نماز میں شریک ہوتے ہیں، کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ ایسی صورت میں کیا ہم جمعہ کی نماز کو جاری رکھ سکتے ہیں یا ختم کر دینا چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ آبادی میں حنفیہ کے قول کے مطابق جمعہ درست نہیں البتہ دیگر ائمہ کے نزدیک جہاں چالیس بالغ مرد ہوں وہاں جمعہ جائز ہے۔  اور آجکل  کے حالات میں بالخصوص جس جگہ جمعہ شروع ہو چکا ہو دیگر ائمہ کے قول کو لینے کی گنجائش ہے۔ اس لیے  اگر بآسانی جمعہ کو بند  کیا جاسکتا ہو تو بند کردینا چاہیئے اور اگر بند کرنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو کرنے کی ضرورت نہیں، اسے  جاری رکھ سکتے ہیں ۔

مغنی لابن قدامہ: (2/207) میں ہے:(مسألة) قال (وإذا لم يكن في القرية أربعون رجلا عقلاء لم تجب عليهم الجمعة) وجملته ان الجمعة إنما تجب بسبعة شرائط (احداها) أن تكون في قرية و (الثاني) ان يكونوا أربعين و (الثالث) الذكورية و (الرابع) البلوغ و (الخامس) العقل و (السادس) الاسلام و (السابع) الاستيطان وهذا قول أكثر أهل العلم، فاما القرية فيعتبر ان تكون مبنية بما جرت العادة ببنائها به من حجر أو طين أو لبن أو قصب أو شجر ونحوه فأما أهل الخيام وبيوت الشعر والحركات فلا جمعة عليهم ولا تصح.  لأن ذلك لا ينصب للاستيطان غالبا وكذلك كانت قبائل العرب حول المدينة فلم يقيموا جمعة ولا أمرهم بها النبي صلى الله عليه و سلم ولو كان ذلك يم يخف ولم يترك نقله مع كثرتهم وعموم البلوى به لكن إن كانوا مقيمين بموضع يسمعون النداء لزمهم السعي إليها كأهل القرية الصغيرة إلى جانب المصر ذكره القاضي ويشترط في القرية أيضا أن تكون مجتمعة البناء بما جرت العادة في القرية الواحدة فإن كانت متفرقة المنازل تفرقا لم تجر العادة به لم تجب عليهم الجمعة إلا أن يجتمع منها ما يسكنه أربعون فتجب الجمعة بهم ويتبعهم الباقون ولا يشترط اتصال البنيان بعضه ببعض وحكي عن الشافعي أنه شرط ولا يصح لأن القرية المتقاربة قرية مبنية على ما جرت به عادة القرى فأشبهت المتصلة.الام  (1/350) میں ہے:( قال الشافعي ) فإذا كان من أهل القرية أربعون رجلا والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر لأن هذا بناء كله وتكون بيوتها مجتمعة ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة مثل ظعن أهل القرى وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حر ا بالغا فإذا كانوا هكذا رأيت والله تعالى أعلم إن عليهم الجمعة فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم.الحاوی فی فقہ الشافعي (2/ 407)میں ہے:المكان الذي تنعقد فيه الجمعة مسألة : قال الشافعي ، رضي الله عنه : ” وإن كانت قرية مجتمعة البناء والمنازل وكان أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة وكان أهلها أربعين رجلا حرا بالغا غير مغلوب على عقله ، وجبت عليهم الجمعة واحتج بما لا يثبته أهل الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة جمع بأربعين رجلا وعن عبيد الله بن عبد الله أنه قال : كل قرية فيها أربعون رجلا فعليهم الجمعة ومثله عن عمر بن عبد العزيز . قال الماوردي : وهذا كما قال . هذه المسألة تشتمل على فصلين: أحدهما : في المكان الذي تنعقد فيه الجمعة ، والثاني : في العدد الذي تنعقد به الجمعة . فأما المكان : فمذهبنا أنها تنعقد في الأمصار ، والقرى إذا كانت القرية مجتمعة البناء ، وكان لها عدد تنعقد به الجمعة، وهم أربعون لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة ،وبه قال من الصحابة عمر وابن عمر وابن عباس ، ومن الفقهاء مالك ، وأحمد بن حنبل وقال أبو حنيفة : لا تجب الجمعة على أهل القرى ، ولا تصح إقامة الجمعة فيها ، إلا أن يكون مصرا جامعا ، فيلزمهم إقامتها .وحد المصر عنده : أن يكون فيه إمام يقيم الحدود ، وقاض ينفذ الأحكام ، وجامع ومنبر ، وبه قال علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ،  وبه قال علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه.کفایت المفتی (3/238) میں ہے:(سوال )   موضع امو کونہ جس کی آبادی میں چونتیس گھر اور اکاون مرد مکلف بستے ہیں ایضاً موضع بتاپور کہ موضع اموکونہ  سے تخمیناً پانسو ہاتھ فاصلے پر ہے اس میں تیس گھر ہیں اور ستاون مرد مکلف بستے ہیں ان سب آدمیوں کا پیشہ کاشتکاری ہے اور موسم برسات میں ہر موضع کے چاروں طرف پانی سے سیلاب ہوجاتا ہے جو بدون کشتی کے آمد و رفت دشوار ہے ہر موضع کے چاروں طرف زراعت اور تین طرف ندی بھی ہے اور دونوں موضعوں کے درمیان جو فاصلہ ہے چراگاہ ہے موسم برسات میں  وہ بھی دو ڈھائی ہاتھ پانی نیچے  پڑتا ہے اس آبادی میں کوئی بازار وغیرہ نہیں ہے اب علی الانفراد دونوں موضعوں میں جمعہ قائم کرنا اور درمیان کی چراگاہ میں علی الاجتماع عیدگاہ بناکے نماز  عید پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟  (جواب ۳۶۷)  ان دونوں   موضعوں میں جمعہ کی نماز حنفی مذہب کے موافق قائم نہ کرنا چاہئیے لیکن اگر قدیم الایام سے ان میں جمعہ قائم ہو تو اسے بند بھی نہ کرنا چاہئیے کہ دوسرے ائمہ کے مذہب کے موافق جمعہ  ہوجاتا ہے۔کفایت المفتی (3/248) میں ہے:سوال: ایک موضع میں تقریباً 30 آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں دو بار بڑی بازار لگتی ہے، سامان ضروری مثلاً کفن وغیرہ ملتا ہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضوع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں۔ اب اس موضع میں شرعاً جمعہ جائز ہے یا نہیں؟جواب: اگر نماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تو اب اس کو بند کرنے میں مذہبی و دینی فتنہ ہے اس لیے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول یا امام مالک رحمہ اللہ کے قو ل کے موافق عمل کر لینا جائز ہے۔دوسری جگہ کفایت المفتی (3/249) میں ہے:سوال: بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ شرائط کا کیا جواب ہے اور بعد ادائے جمعہ احتیاطی ادا کرنا کیسا ہے؟الجواب: چھوٹی بستیوں میں نماز جمعہ حنفیہ کے نزدیک نہیں ہے لیکن انہوں نے جمعہ کی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے مصر کی تعریف میں یہاں تک تنزل کیا کہ ’’ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها‘‘ تک لے آئے حالانکہ ان کے اپنے اقرار ’’هذا يصدق علي كثير من القرى‘‘  سے یہ تعریف بہت سے قریٰ پر صادق آتی ہے پس نماز جمعہ کی اہمیت اور مصالح مہمہ عالیہ اسلامیہ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ نماز جمعہ کو ترک نہ کیا جائے اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک پر عمل کے ہی ضمن میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved