• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جمعہ کی اذان کےبعد گھر میں ذکر اذکار کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:  ہماری مسجد میں جمعہ کی پہلی اذان ساڑھے بارہ بجے ہوتی ہے اور دو بجے جماعت کھڑی ہوتی ہے. امام صاحب کی تقریر نماز سے تقریبا 30 یا35    منٹ پہلے شروع ہوتی ہے۔ چونکہ اذان اور تقریر کے درمیان کافی وقت ہوتا ہے اس لئے میں اس دوران اپنے گھر میں  سورہ کہف کی تلاوت اور درود شریف کی تسبیح کر لیتا ہوں ۔ایک صاحب سے میں نے  ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ غلط کر رہے ہیں اور آپ کو تلاوت و تسبیح پر ثواب کے بجائے گناہ ہوگا ۔آپ کو جمعہ کی پہلی اذان  پر ہی مسجد  چلے جانا چاہیے۔

کیا جمعہ کی پہلی اذان کے بعد تلاوت،  تسبیح یا  کوئی اورعبادت کرنا گناہ ہے، جب کہ میرا مقصد اپنے خالی وقت کو ذکر وتلاوت کے ذریعے قیمتی بنانا ہے اور  اس کی  وجہ سے جمعہ کی نماز میں کسی قسم کی کوتاہی بھی نہیں ہوتی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

محلہ کی مسجد میں پہلی اذان کے بعد جمعہ کی تیاری میں مشغول ہو جانا اور اگر پہلے سے تیاری ہو   تو مسجد کی طرف نمازجمعہ کے لیے روانہ ہو جانا واجب ہے۔ اس لئے پہلی اذان کے بعد  جمعہ کے لئے  تیاری اور  روانگی کے علاوہ  کسی بھی دوسرے عمل مثلا کھانے پینے، ملازمت، کاروبار  میں   لگنا حتی کہ گھر میں بیٹھ کر تلاوت ، تسبیحات اور دیگر  عبادات میں مشغول ہونا   بھی جائز نہیں۔لہذا اگر آپ جمعہ کی پہلی اذان سے قبل ہی تیار ہو جاتے  ہیں تو مسجد روانہ ہو  جائیں اور وہاں پہنچ کر جمعہ کا بیان شروع ہونے سے پہلے تلاوت اور تسبیحات کے ساتھ اپنا وقت قیمتی بنائیں ۔نیز مسجد کی طرف  چلنے کے دوران بھی تسبیحات و تلاوت جاری رکھ سکتے ہیں۔

( قَوْلُهُ : وَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ الْآذَانَ الْأَوَّلَ تَرَكَ النَّاسُ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ وَتَوَجَّهُوا إلَى الْجُمُعَةِ ) قُدِّمَ ذِكْرُ الْبَيْعِ عَلَى ذِكْرِ الشِّرَاءِ ؛ لِأَنَّ الْإِيجَابَ مُقَدَّمٌ عَلَى الْقَبُولِ وَالْمُرَادُ مِنْ الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ مَا يَشْغَلُهُمْ عَنْ السَّعْيِ حَتَّى إنَّهُ إذَا اشْتَغَلَ بِعَمَلٍ آخَرَ سِوَاهُ يُكْرَهُ أَيْضًا ۔ (الجوهرة النيرة باب صلوة الجمعة جلد 1 صفحة 365)

فی الدرالمختار   ( ووجب سعي إليها وترك البيع ) ولو مع السعي ، في المسجد أعظم وزرا ( بالأذان الأول ) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان ۔ وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريما

و فی الشامیة  ( قوله وترك البيع ) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعا للآية ، نهر ( قوله : ولو مع السعي ) صرح في السراج بعدم الكراهة إذا لم يشغله ، بحر۔ ( ردالمحتار، الجزء الثالث، ص 42 )

امداد الفتاوی،   ج۱ ،  صفحہ ۵۳۱،    سوال ۱۰۶، باب صلوة الجمعۃ  والعیدین میں ہے:

سوال: جمعہ کی پہلی اذان سن کر تمام کاموں کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے واسطے جامع مسجد میں جانا واجب ہے خرید و فروخت یا کسی اور کام میں مشغول ہونا حرام ہے یہ مسئلہ تو فقہی ہے تو کیا جمعہ کے ایسے وقت میں سونا قیلولہ کرنا اور مطالعہ کتب دینی وغیرہ کرنا حرام ہوگا ؟

الجواب: فی الدرالمختار وجب سعی اليها و ترک البیع ۔فی رد المحتار قوله و ترک البیع   اراد به کل عمل ینافی السعی و خصه اتباعا للآیة۔ نهر ۔860/1 اس سے معلوم ہوا کہ جس عمل میں مشغول ہونے سے سعی میں خلل پڑے وہ حکم بیع میں ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved