• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

داڑھی منڈے کی اذان اور اقامت اور نماز پڑھانےکا حکم

استفتاء

(1)اذان کی دین اسلام میں کیا حیثیت ہے؟(2)کیا اذان دینے کیلئے داڑھی کا ہونا ضروری ہے؟یا داڑھی کے بغیر بھی اذان ہو سکتی ہے؟اگر کوئی بندہ اذان دے دے اور اس کی داڑھی نہ ہو تو کیا وہ اذان ہو جائے گی یا دوبارہ دینی ہو گی؟ کیاتکبیر پڑھنے کیلئے داڑھی کی شرط ہے؟(3)جو بندہ اذان دے اسی کا تکبیر پڑھنا کتنا اہم ہے؟مؤذن کی اجازت کے بغیر کوئی بندہ تکبیر پڑھنا شروع کر دے تو کیا اسے مؤذن روک سکتا ہے؟ جبکہ  اس آدمی کی داڑھی بھی نہیں ہے جس نے مؤذن کی اجازت کے بغیر اقامت شروع کر دی ہے۔ (4)جب جماعت کا وقت ہو یا نماز پڑھنی ہو تو کس کو نماز پڑھانی چاہیے؟داڑھی والے غیر حافظ کو یا بغیر داڑھی کے حافظ کو جب کہ کوئی داڑھی والا حافظ یا امام نہ ہو؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) پانچوں وقت کی فرض عین نمازوں اور جمعہ کو جماعت سے ادا کرنے کے لیے اذان دینا مردوں پر سنت مؤکدہ ہے اور ترک پر گناہ ہے۔(مسائل بہشتی زیور 149/1 )

تنویر الابصار مع درالمختار(60,61/2) میں ہے:(وهو(أي الأذان:از ناقل) سنة ) للرجال في مكان عال ( مؤكدة ) هي كالواجب في لحوق الإثم ( للفرائض ) الخمس ( في وقتها ولو قضاء )۔

(2) بغیر داڑھی والے سے مراد اگر وہ شخص ہے جس کی ابھی داڑھی آئی ہی نہ ہو تو ایسا شخص اذان دے سکتا ہے۔ اور اگر مراد وہ شخص ہے جو داڑھی منڈاتا ہے یا ایک قبضہ (چار انگل) سے کم کرواتا ہے تو ایسے شخص کا اذان واقامت کہنا  مکروہ ہے۔کیونکہ ایسا شخص فاسق ہے اور  فاسق کی اذان  کا اعادہ مستحب ہے۔

البحر الرائق: (1/458) میں ہے:قوله: (وكره أذان الجنب وإقامته وإقامة المحدث وأذان المرأة والفاسق والقاعد والسكران) …. وأما الفاسق فلأن قوله لا يوثق به ولا يقبل في الأمور الدينية ولا يلزم أحدا فلم يوجد الإعلام.تنویر الابصار مع درالمختار(75/2)میں ہے: (ويكره أذان جنب وإقامته وإقامة محدث لا أذانه… وأذان امرأة وفاسق … و يعاد أذان جنب)ندبا وقيل وجوبا (لا إقامته )لمشروعية تكراره في    الجمعة دون تكرارها وقال في الشامية تحت (قوله ويكره أذان جنب)… وظاهره أن الكراهة تحريمية …(قوله ويعاد أذان جنب الخ ) زاد القهستاني والفاجر والراكب والقاعد والماشي والمنحرف عن القبلة وعلل الوجوب في الكل بأنه غير معتد به والندب بأنه معتد به إلا أنه ناقص قال وهو الأصح كما في التمرتاشي .فتاوی محمودیہ (5/438)میں ہے:سوال :ڈاڑھی منڈانے والااذان دے سکتا ہے یا تکبیر کہہ سکتا ہے یا نہیں ؟الجواب :مکروہ ہے۔(3) جو شخص اذان دے اقامت بھی اسی کا حق ہے  ۔ ہاں اگر وہ اذان دے کر کہیں چلا جائے یا کسی دوسرے کو اجازت دےدے تو دوسرا بھی اقامت کہہ سکتا ہے۔ البتہ جس آدمی نے مؤذن کی اجازت کے بغیر اقامت کہنا شروع کر دی  جبکہ وہ داڑھی منڈا بھی ہے مؤذن اس کو اقامت کہنے سے  روک سکتا ہے  کیونکہ وہ داڑھی منڈا فاسق ہے اور فاسق کی اقامت مکروہ ہے۔

فتاویٰ ہندیہ(1/ 115)میں ہے:وإن أذن رجل وأقام آخر إن غاب الأول جاز من غير كراهة وإن كان حاضرا ويلحقه الوحشة بإقامة غيره يكره وإن رضي به لا يكره عندنا كذا في المحيط

(4)داڑھی والا غیر حافظ اگر نماز پڑھا سکے  اور  اس کی قرأت بھی درست ہو اور نماز کے ضروری مسائل سے  بھی واقف  ہو تو نماز اسی کو پڑھانا چاہیے۔

آپ کے مسائل اور انکا حل(429/3) میں ہے:

سوال:  پوری مسجد میں تمام لوگ جن میں صاحبِ علم بھی ہے سب داڑھی منڈے ہیں علاوہ ایک آدمی کے اب ایسی صورت میں اقامت اور امامت کس ترتیب سے ہو جبکہ بار یش کم علم ہے؟الجواب اگر باریش آدمی نماز پڑھا سکتے ہیں اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہے تو نماز انہیں کو پڑھانی چاہیے اقامت بھی وہ خود ہی کہہ لیا کریں، داڑھی منڈے اہل علم نہیں اہل جہل ہے ،بقول سعدیعلمے کہ راہ حق نہ نماید جہالت است

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved