• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میت کے فدیہ کی  ادائیگی کے لیے حیلہ اختیار کرنا۔ اپنی زکوۃ کی ادائیگی کے لیے حیلہ اختیار کرنا

  • فتوی نمبر: 25-348
  • تاریخ: 09 مئی 2024
  • عنوانات:

استفتاء

ميت کے ورثاء میت کی نمازوں کا فدیہ دینا چاھتے ہیں۔ فدیہ ایک لاکھ بنا  لیکن ورثاء کے پاس پچاس ہزار ہے۔

  1. کیا اس صورت میں حیلہ کرنا درست ہے ؟؟
  2. پچاس ہزار زیدنے نا بالغ طالب علم کو دیا گیا وہ اس نے اپنے استاد کو ہدیہ دیا اور استاد نے واپس ورثاء کو ہدیہ کردیا اور وارث نے وہی  پیسے مدرسہ میں جمع کروا دیے اور میت کی طرف سے ایک لاکھ ادا ہوگیا؟ کیا یہ صورت درست ہے؟
  3. اور اسی طرح یہی حیلہ کرکے اگر کوئی بندہ اپنی زکوۃ کی ادائیگی کرتا ہے تو یہ صحیح ہے یا ابطال حکم شرع لازم آتا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:  نابالغ بچے کا والد مستحق زکوۃ ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت: جی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. اگر میت کا اور ترکہ اس کے علاوہ بالکل نہ ہو تو مذکورہ حیلہ کی گنجائش ہے۔
  2. مذکورہ صورت میں نابالغ بچے کو جو فدیہ کی رقم دی گئی اس سے 50ہزار کے بقدر فدیہ تو ادا ہو گیا۔ لیکن دوسری طرف چونکہ نا تو نابالغ بچہ خود اپنا مال کسی کو ہدیہ کر سکتا ہے اور نہ اس کا ولی۔ اس لیے مذکورہ صورت میں نابالغ بچے نے استاد کو جو ہدیہ کیا وہ شرعاً درست نہیں لہٰذا 50ہزار روپے اسی طالب علم کو واپس دینا ضروری ہے۔
  3. حیلہ ضرورت کے وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب بندہ اپنی زکوۃ ادا کرتا ہے تو وہاں پر کوئی ایسی مجبوری نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے حیلہ جائز ہو جائے کیونکہ کل مال میں سے صرف ڈھائی فیصد دینا ہوتا ہے اور کل مال کے اعتبار سے ڈھائی فیصد کوئی اتنی بڑی رقم نہیں بنتی۔
  4. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved