• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سید گھرانے کےغرباءکو زکوۃ سے مددکرنےکاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

گذارش ہے کہ میں سید گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، میں ایک متوسط کاروباری شخص ہوں، میرے بہت سے عزیز و اقارب سید ہیں لیکن وہ غریب ہیں اور مالی اعتبار سے دیکھا جائے تو مستحق زکوٰۃ ہیں، ان عزیز و اقارب کی بہت سی ضروریات مثلاً ہسپتال وغیرہ کے اخراجات ہیں کہ جو ان کے لیے ادا کرنا مشکل ہوتے ہیں۔ میرے لیے بھی  متوسط درجہ کا ہونے کی وجہ سے ان کی غیر زکوٰۃ سے مدد کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ بہت سی مرتبہ دیگر مسلمان بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہو پاتے اور ہر وقت دوسروں کو ان کی طرف توجہ دلانا بھی میرے لیے مشکل ہے اس کے باوجود اپنی زکوٰۃ ایسے ضرورتمند قریبی اعزہ کو چھوڑ کر دیگر لوگوں کو تلاش کر کے دینا بھی طبیعت پر گراں گذرتا ہے تو کیا شریعت میں ایسی صورتحال میں سیدوں کو زکوٰۃ دینے کی گنجائش ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذكوره صورت میں آپ حتی الامکان اپنے رشتہ داروں کی غیر زکوٰۃ سے مدد کریں، اور دوسروں کو بھی متوجہ کرتے رہیں تاہم اگر کوئی ایمرجنسی کی صورت پیش آجائے اور غیر زکوٰۃ سے مدد کرنا ممکن نہ ہو تو اس خاص صورت میں آپ اپنی یا غیروں کی زکوٰۃ کی رقم سے بھی اپنے مستحق رشتہ داروں کی مدد کر سکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی (3/350) میں ہے:

ولا إلى بني هاشم … ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع. وقال الشامي تحت قوله: (إطلاق المنع الخ) يعني سواء في ذلك كل الازمان وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم. وروى أبو عصمة عن الامام أنه يجوز الدفع إلى بني هاشم في زمانه، لان عوضها وهو خمس الخمس لم يصل إليهم لاهمال الناس أمر الغنائم وإيصالها إلى مستحقيها. وإذا لم يصل إليهم العوض عادوا إلى المعوض كذا في البحر.

بحر الرائق (2/421) میں ہے:

وأطلق الحكم في بني هاشم ، ولم يقيده بزمان ، ولا بشخص للإشارة إلى رد رواية أبي عصمة عن الإمام أنه يجوز الدفع إلى بني هاشم في زمانه ؛ لأن عوضها ، وهو خمس الخمس لم يصل إليها لإهمال الناس أمر الغنائم وإيصالها إلى مستحقها وإذا لم يصل إليهم العوض عادوا إلى المعوض وللإشارة إلى رد الرواية بأن الهاشمي يجوز له أن يدفع زكاته إلى هاشمي مثله ؛ لأن ظاهر الرواية المنع مطلقاً.

فتاویٰ شامی (11/101) میں ہے:

وقد ذكروا أنه لا يجوز العمل بالقول الضعيف إلا للإنسان في خاصة نفسه إذا كان له رأي وبعضهم منع العمل به فحينئذ لا يجوز العمل به عند الإطلاق ولا عند التصريح ويحرر  …………. قال سيدي الوالد وهذا في غير موضع الضرورة فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة،  ثم قال وفي المعراج عن فخر الأئمة لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة كان حسنا ا هـ….

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved