• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سودی اکاؤنٹ میں سے نکلوائی ہوئی رقم اصل رقم میں سے شمار ہوگی

استفتاء

میں سعودیہ سے پیسے کما کر ابو کو پاکستان دیتارہا تقریبا دس سال تک دیتارہا اس وقت پیسوں کے مالک وہ ہیں ان کاذاتی بچت (سود)والا اکاونٹ ہے ۔میں شروع سے ابو سے کہتا تھا کہ سود حرام ہے کرنٹ اکاونٹ کھلوایے وہ نہیں مانتے تھے اورکہتے ہیں کہ اوپر کا منافع استعمال کرلیتاہوں ،باقی پیسے موجود رہیں گے پھر میں نے دل میں سوچا کہ اللہ نہ کرے میرے ابو وفات پاکرجائیں گے تومیں اکیلا بیٹاہوں پیسے مجھے ہی ملنے ہیں میں مثلا دس سال میں سے سود والے دویا تین لاکھ نکال کربغیر ثواب کی نیت کے تقسیم کردوں گا باقی میں استعمال حلال کے کرلوں گا۔پھر سوچا کہ میں تو شروع سے بھی ان کو سمجھا رہا ہوں کہ یہ سود ہے اس  سےبچیں وہ کہتے ہیں میں نکلواکر غریبوں میں تقسیم کردیتاہوں ۔کیا جب  ابو وفات پائیں گے تو وہ جو پیسوں پر لیا گیا منافع سود ابوخود نکلوالیتے ہیں وہ ہی کافی ہے یا پھر جب میں ان پیسوں کا مالک بنوں گا تو مجھے بھی دس لاکھ سے دوتین لاکھ نکلواکر بغیر ثواب کی نیت سے تقسیم کرنے پڑیں گے؟جواب دے کر دعاؤں کا موقع عنایت فرمائیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے والد نے جو 10لاکھ بینک میں جمع کروائے ہیں وہ تو حلال ہیں البتہ ان پر ملنے والا سود حرام ہے  لہذا جو پیسے آپ کے ابو اپنی زندگی میں نکلوائیں گے وہ ان کے حلال پیسوں میں سے شمار ہوں گے ا(لا یہ کہ وہ اپنی جمع کروائی ہوئی رقم سے زیادہ نکلوائیں تو اس صورت میں اضافی رقم سود میں سے  شمار ہوگی) ۔اس لیے  ان کی وفات کے بعد ان کی جو اصل رقم بینک میں باقی ہو گی (یعنی 10 لاکھ میں سے ان کی وفات تک نکلوائی ہوئی رقم منہا کرکے)  وہ ان کے ورثاء کے لیے بھی حلال ہوگی  البتہ جو باقی سود کی رقم ہوگی بہتر ہے کہ اسے بینک میں ہی چھوڑ دیں  کیونکہ مذکورہ صورت میں یقینا معلوم ہے کہ اس سود کا اصل مالک بینک ہے اس لیے اسے ہی دینا ضروری ہے اور اگر نکلوا ہی لیں  تو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں  اسے اپنے استعمال میں نہ لائیں ۔

فتاوی مفتی محمود 340/8 )میں ہے:

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ  میں کہ ایک صاحب جائداد مقروض نقصان زدہ نے انتہائی مجبوری کی حالت میں ایک آدمی سے پانچ ہزار روپیہ نقد 150 روپے ماہوار سود  منافع طے کرکے لیا ۔5،6 ماہ تک متواتر 150 روپے  ماہوار دیتا  رہا بعد میں لینے والے کو احساس ہوا کہ یہ سودومنافع مقرر حرام ہے دیگر لوگوں نے بھی سن لیا اور محسوس کیا اس میں 2،3 افراد  دیگر موجود ہیں گواہ ہیں اب لینے والا شخص بھی بدستور مقروض ومجبور ہے پچھلے 3،4 ماہ پہلے اس نے کہا تھا یہ سود ہے میں نہیں دینا چاہتا  آپ رقم واپس کرلیں اور آہستہ آہستہ تھوڑی تھوڑی کر کے لیں ۔900 روپے ماہوار 150 کے حساب  کے ساتھ اس کے پاس پہنچ چکا ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے سالم 5000 روپے واپس کیا جائے مقروض دینے والا کہتا ہے کہ 4100 بقایا قسطوں میں لیا جائے اصل رقم دینے والا یہ کہتا ہے کہ اگر سود ہے اور آپ سود سمجھ کر دے رہے ہیں تو میں نہیں لیتا اس کی رہنمائی فرمادیں

الجواب: واضح رہے کہ قرض دینے والے کو قرض کے دباؤ یا رعایت سے جو نفع حاصل ہو وہ سود ہے کل قرض جر نفعا فھو ربا  پس صورت مسئولہ میں پانچ ہزار روپیہ کے 150 روپیہ ماہوار کے حساب سے جو نام نہاد منافع مقرر کیے ہیں یہ سود ہیں اس کا لینا قطعا حرام ہے اس طریقہ سے جو نو سو رپیہ اس کو حاصل ہوئے ہیں شرعا وہ قرضہ سے ساقط شمار ہوں گے اور بقیہ 4100 روپیہ لینے کا وہ مستحق ہے

امداد الفتاوی جدید 121/9)میں ہے:

سوال (۲۴۸۴) :  قدیم  ۴/ ۱۴۷-   زید کا باپ عمرو پچاس روپے مشاہرہ پر ایک عیسائی ریاست میں ملازم تھا، مگر خرچ بھی اسی قدر تھا، زید کو معلوم ہے کہ اس کا باپ متدیّن اور رشوت سے محترز نہ تھا، عمرو نے ایک مکان اور جائیداد خریدی، جو زید کو ترکہ میں ملی، اخراجات و مصارف خانگی سے بخوبی واقفیت کی بناء پر زید کہہ سکتا ہے کہ یہ کل مال رشوت کا پیدا کیا ہوا ہے، اور کل نہیں تو اکثر مال  رشوت کا ضرور ہے اس مکان میں رہنا یا اس کا بیچنا وغیرہ انتفاع زید کو حلال ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیا کرے؟

الجواب:  تکلم علیہ في الدرالمختار في مواضع قبیل باب زکوٰۃ المال وقبیل باب الفضولي ۔ وکتاب الغصب ۔ وأحکام البیع من الحظر والإباحۃ ۔ و تنقل منہا روایۃ واحدۃ وھي کالمخلص من جمیعہا، وھي ھٰذہ، والحاصل إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم، وإلا، فإن علم عین الحرام لا یحل لہ، ویتصدق بہ عنہ صاحبہ، وإن کان مالا مختلطاً مجتمعاً من الحرام ولایعلم أربابہ ولا شیئاً منہ بعینہ حل لہ حکما، والأحسن دیانۃ التنزہ عنہ۔ اھ ۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ جن سے رشوت لی ہے اگر معلوم ہوں یا کوئی چیز خاص رشوت میں لی ہوئی بعینہٖ موجود ہو تب تو زید کو انتفاع حلال نہیں ، ورنہ فتویٰ کی رُو سے حلال ہے،گو تقویٰ کے خلاف ہے ۔۱۱؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۲۲؁ ھ (امداد، ج۲، ص۱۶۱)

امداد الفتاوی جدید 109/9)میں ہے:

سوال (۲۴۷۴) :  قدیم  ۴/ ۱۴۴-   کیا جواب ہے ان سوالوں کا اے علمائے دین ومفتیان شرع متین و حاملانِ حبل المتین! اوّل یہ ہے کہ ایک شخص مَر گیا اور اس کی کمائی حرام ذریعہ سے ہے اور اس کا بیٹا اس کو جانتا ہے اور خاص لوگوں کو بھی جانتا ہے، تو بیٹے کے واسطے یہ مال حلال ہے یا نہیں ؟ مع دلیل بیان کیجئے اور ثواب لیجئے، اور اگر حلال نہ ہو تو بیٹے پر وہ مال مالکوں کے پاس واپس کردینا واجب ہے یا نہیں ؟

الجواب:  في الدرالمختار: وفي الأشباہ: الحرمۃ تتعدد مع العلم بہا إلا في حق الوارث، و قیدہ في الظہیریۃ: بأن لا یعلم أرباب الأموال وسنحققہ ثمہ (۲)۔ اور ردالمحتار میں اس پر بہت بسط سے بحث کی ہے، حاصل مجموعہ کا یہ ہے کہ اگر کوئی مالِ حرام علیحدہ رکھا ہے تو وہ بالکل حرام ہے، یعنی اس میں تصرّف بھی نافذ نہ ہوگا، پس اگر اس کا مالک معلوم ہے تو اس کو واپس کرنا واجب ہے اور اگر معلوم نہیں تو لقطہ کی طرح مساکین پر تصدق کردے۔ ا ور اگر وہ مال باہم مخلوط ہوگیا تو اگر مالک مستحق معلوم ہیں تو اس کا بدل واپس کردے، اور اگر مالک بھی معلوم نہیں تو قضاء ًاس میں تصرف نافذ ہو سکتا ہے؛ لیکن دیانۃً اس کو حلال نہیں ۔ ج۴، ص ۲۰۱-۲۰۲۔ إلی شرحہ قولہ سنحققہ ثمہ ۔ واللہ اعلم  ۲۶؍ ذی الحجہ ۱۳۳۱؁ ھ (تتمہ ثانیہ ص ۱۰۲)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved