• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)تعلق والے شخص کو فیکٹری والوں سے ملاوانے پر کمیشن لینا جبکہ اس شخص کو  کمیشن کو پتہ نہ ہو(2)بائع اورمشتری دونوں سے کمیشن لینے کی ایک صورت

استفتاء

ایک شخص پہلے دوبئی میں کام کرتا تھا اور وہاں اس کے تاجروں سے تعلقات تھے پھر وہ شخص پاکستان آگیا  ، اب  اس کے یہاں مختلف فیکٹریوں  والوں سے تعلقات ہیں  اور وہ شخص ان کے لیے دلالی کا کام کرتا ہے یعنی ان کو گاہک لا کر دیتا ہے اور فیکٹری والے سے کمیشن لیتا ہے ،چنانچہ دوبئی سے وہ تاجر پاکستان مال لینے آتے ہیں تو یہ شخص ان کو فیکٹری والوں سے ملوا کر جو آرڈر بنتا ہے اس پر کمیشن لیتا ہے، دوبئی والے تاجروں کو اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ یہ کمیشن لیتا ہے  اور دوبئی والوں سے چونکہ اس کے پہلے سے تعلقات ہیں اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ اسے اپنا خیر خواہ کے طور پر ہی رابطہ کرتے ہوں تو :

1۔جبکہ کمیشن کا دوبئی کے  تاجر کو نہیں پتا ہوتا تو کیا یہ لینا جائز ہے؟

2۔اگر ہم دوبئی کے  تاجر سے بھی کمیشن لیں کہ اسکو فیکٹری کے مالک سے ملوایا تو کیا یہ بھی لینا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں  آپ کا فیکڑی والے سے کمیشن لینا جائز  نہیں کیونکہ مذکورہ صورت میں  دوبئی کے تاجر کو معلوم نہیں ہوتا کہ درمیان والا شخص کمیشن ایجنٹ ہے البتہ اگر اس کو بھی پہلے سے معلوم ہو تو پھر جائز ہے  جبکہ فیکٹری والے سے پہلے سے کمیشن کی مقدار بھی طے ہو ۔

2۔اگر آپ کی حیثیت دونوں فریقوں کو معلوم ہو، کمیشن بھی طے ہو  اور آپ صرف فیکٹری کے مالک اور تاجر   کو ملوائیں اور خرید و فروخت کے معاملات مالک اور تاجر   خود سرانجام دیتے ہوں  تو آپ دونوں طرف سے کمیشن لے سکتے ہیں۔

فقہی مضامین(384)میں ہے:

بروکر کے طور پر کام کی اجرت کے مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ بائع  اور مشتری دونوں کو ہی اس کا علم ہو کہ یہ شخص بروکر کے طور پر کام کر رہا ہے صرف بائع یا مشتری کا علم ہونا کافی نہیں وجہ یہ ہے کہ جب بیچ کے آدمی کا بروکر اور دلال ہونا معلوم نہ ہو تو آدمی اس سے  ہمدردی کی بنیاد پر تعاون طلب کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آدمی اس سے بے لوث راہنمائی کرے گا جبکہ بروکر اور دلال اپنے مفاد کو پیش و نظر رکھتا کے اور اس کے کام  میں بے لوث راہنمائی نہیں ہوتی اس طرح سے راہنمائی لینے والے فریق کو دھوکہ ہوتا ہے ۔

دررالحکام شرح مجلةالاحکام المادة45(1/231)میں ہے :

اما اذا كان الدلال مشى بين البائع و المشترى و وفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فان كان مجرى العرف و العادة ان تؤخذ اجرة الدلال جميعها من البائع اخذت منه او من المشترى اخذت منه او من الاثنين اخذت منهما

شامی 4/560)میں ہے:

اما الدلال فان باع العين بنفسه باذن ربها فاجرته على البائع وان سعي بينهما و باع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالة على البائع او المشترى او عليهما بحسب العرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved