• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بچہ گود لینا اوررضاعت کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دو میاں بیوی ہیں جن کی عمر 30 سے 32 سال ہے دس سال شادی کو ہو گئے ہیں لیکن ان کی اولاد نہیں ،دونوں میاں بیوی فنانس کے طور پر ٹھیک ہیں وہ دونوں ایک بچہ یا بچی کو اولاد کے طور پر گود لینا چاہتے ہیں کسی رشتے دار یا یتیم خانے سے یہ فیصلہ وہ شرعی طور پر جاننے کے بعد کریں گے مفتی صاحب اس کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں کس طرح وہ ایک بچہ یا بچی کو اولاد کے طور پر لے سکتے ہیں اس کی تفصیل سے رہنمائی فرمائیں کیا لڑکا اور لڑکی دونوں کو لینے کے شرعی احکامات تبدیل ہوتے ہیں یہ ایک ہی طریقہ کار ہوتا ہے

(نوٹ) بیوی جو رضاعی ماں بنے گی اس کا اپنا دودھ نہیں ہے اور اس کی کوئی بہن بھی نہیں ہے خاوند کی بھی کوئی بہن نہیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔کسی  بچے یا بچی کو گودلے سکتے ہیں چاہے کسی رشتے دار سے لیں یا کسی اور سےلیں۔نیز بچہ بیوی کے لیے اور بچی شوہر کے لیے غیر محرم رہے گی ۔بشرطیکہ کسی رشتہ دار کی وجہ سے بچہ بیوی کا اور بچی شوہر کی محرم نہ ہو ۔

  1. اگر بچہ یا بچی ابھی دودھ کی عمر میں ہوں جو کہ دو سال ہے اور آپ کی اہلیہ کو کسی بھی طریقے یعنی دواؤں وغیرہ سے دودھ اتر آئے یا کم ازکم زرد رنگ کا پانی اتر آئے اور وہ اتنی مقدار میں ہو کہ بچے کے حلق سے نیچے اتر جائے جس سے یقین ہوجائے کہ بچے کے پیٹ میں چلا گیا ہے تو اس سے وہ بچہ یا بچی آپ کی اہلیہ کا رضاعی بیٹا یابیٹی بن جائے گا اور آپ کی اہلیہ کی طرف سے تمام رضاعت کے رشتے ثابت ہو جائیں گے لیکن شوہرسے ان کا رضاعت کا رشتہ قائم نہیں ہوگا تاہم بچی شوہر کی ربیبہ(یعنی جس بیوی سے شوہر نے صحبت کرلی ہے اس کی رضاعی بیٹی) ہونے کی وجہ سے شوہر کے لیے بھی محرم شمار ہوگی ۔اس لئے ایسی صورت میں میاں بیوی سے بچے بچی کے پردے کا مسئلہ نہیں رہے گا البتہ میاں کے دیگر رشتے داروں مثلا، بہن بھائی وغیرہ کے لئے وہ بچہ یابچی نامحرم ہوں گے

نیز دودھ کا رشتہ یا گود کا رشتہ ثابت ہونے کے باوجود چونکہ وہ آپ کی نسبی اولاد نہیں ہونگے اس لئے آپ کی وراثت میں ان کا شرعی حق نہیں ہوگا ان کو یا تو زندگی میں مالکانہ بنیادوں پر کچھ دیں گے یا ان کے لئے مرنے کے بعداپنی کل وراثت کے  33 فیصد کی وصیت کر سکتے ہیں۔نیز اس بچے یا بچی کی ولدیت میں شوہر کے لیے اپنا نام لکھوانا بھی جائز نہ ہو گا۔

البحر الرائق (3/ 242)

والمراد به اللبن الذي نزل من المرأة بسبب ولادتها من رجل زوج أو سيد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقيدنا بكونه نزل بسبب ولادتها منه لأنه لو تزوج امرأة ولم تلد منه قط ونزل لها لبن وأرضعت به ولدا لا يكون الزوج أبا للولد لأنه ليس ابنه لأن نسبته إليه بسبب الولادة منه فإذا انتفت انتفت النسبة فكان كلبن البكر۔

الفتاوى الهندية (1/ 344)

دخل في فم الصبي من الثدي مائع لونه أصفر تثبت حرمة الرضاع لأنه لبن تغير لونه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لونزل للبکر مائ لونه اصفر لایثبت من ارضاعه تحریم۔

فی الشامی:جلد:3

المرادبها(ای البکر)التی لم تجامع قط بنکاح او سفاح

البحر الرائق (3/ 242)

لو كان من غيره بأن تزوجت برجل وهي ذات لبن لآخر قبله فأرضعت صيية ( ( ( صبية ) ) ) فإنها ربيبة للثاني بنت للأول

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved