• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالت میں طلاق ثلاثہ کی ایک صورت کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم،میری شادی 17 فروری 2011 کو  احمد سے ہوئی تھی، میرے خاوند نے پہلی بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا جس کی وجہ یہ تھی کہ وه نشہ کرتے تھے اور میں اس سے انجان تھی ،مجھے لگا کہ ان کی جیب میں کسی لڑکی کی تصویرہے یاکوئی دوسری سم ہے جس سےوہ اس کے ساتھ بات کرتے ہیں، وہ اس بات کا انکار کر رہے تھے اور میں باضد تھی کہ میں نے ان کی جیب دیکھنی ہے ،اس طرح لڑائی شروع ہوئی ،میں زبردستی جیب میں ہاتھ مار رہی تھی تو انہیں زیادہ غصہ آیا اور مارنا شروع ہوگئےاور بات بگڑ گئی  اور انہوں نے ایک بار بولا کہ’’ تم میرے نکاح سے فارغ ہو‘‘ اور میں نے یہ بات اپنی نند کو بتائی، انہوں نے سب سے بات کی اور اگلے ہی دن عیدتھی ۔عید کے تیسرے دن یہ مجھے میرے گھر لے کر آئے اور دروازے پر بولا کہ میں آتا ہوں ،لیکن واپس  نہیں آئے اور میں تقریبا ایک ماہ اپنے والدین کے گھر رہی، پھر ایک ماہ بعد میری ان سے فون پر بات ہوئی اور یہ مجھے لینے آ گئے ،گھر جا کر انہوں نے میرے سر کے بال پکڑ کر نکاح کا خطبہ پڑھا ،اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایاکہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی تم میری بیوی ہو اور ہم رہنے لگے اور ایک ماہ بعد مجھے حمل ہو گیا پھر ایک رات یہ دیرسےرات شراب پی کر آئے تھے اور میری اس بات پر لڑائی ہوئی کہ آپ دیر سے آئے ہیں مگر شراب پی ہوئی ہے اور پھر بحث  شروع ہوئی اور یہ گالیاں دینا شروع ہوگئےاور مار تک بات پہنچی اور بولا ’’ طلاق ،طلاق ،طلاق ہے‘‘ صبح اٹھ کر انہوں نے اپنے بھائی کو بتایا کہ میں نے رات ایسی حالت میں اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے دی، وہ ہمیں جامعہ اشرفیہ لے کر گئے، وہاں مفتی شاہد عبید صاحب نے ان سے پوچھا کہ پہلی بار جب آپ نے نکاح سے فارغ ہو ‘کے لفظ بولے تھے تو کیا آپ کی نیت طلاق کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں !پھر مفتی صاحب نے کہا کہ جو تین طلاقیں آپ نے دیں یہ ضائع ہیں، کیونکہ آپ کے ساتھ ان کا نکاح ہی نہیں تھا کیونکہ ایجاب و قبول نہیں ہوا تھا،  انہوں نے نئے حق مہر کے ساتھ جو کہ 5000 تھا ہمارا نکاح کروایا اور ہم رہنے لگ گئے۔

اب 2012 میں میری بیٹی دو ماہ کی تھی، مجھے حمل ہوااورجب میرا پانچواں ماہ گزر رہا تھا ،میرے میاں سو رہے تھے میرے بھائی کی کال آئی، انہوں نے میرے خاوند کو ملنے بلوایا جبکہ یہ نشے کے عادی ہیں، اگر صبح اٹھ کر اپنا نشہ نہ پورا کریں تو ان کو شدید غصہ آتا ہے اور اس وقت یہ گھر سے بغیر ناشتے کے بغیر کوئی نشہ پورا کیے ان کو ملنے چلے گئے ،واپس آکر یہ میرے ساتھ لڑنے لگے اور گالیاں دینے لگ گئے ۔میں نے تھوڑا سا غصے سے بولا کہ کیا ہو گیا ہے؟ اگر آپ ملنے چلے گئے ہیں تو پھر؟ یہ اور بولے اور مارنے لگے اور’’حمل کی حالت میں تین بار طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے بولا‘‘ میں نے اپنے اور ان کے گھر والوں کو بتایا وہ ہمیں مفتی شاہد عبید صاحب کے پاس لے کرگئے انہوں نے پہلے کہا کہ نکاح ختم ہے،پھر جب میرے میاں نے حلف اٹھایا اور اپنی حالت بیان کی تو انہوں نے کہا کہ’’ جنون کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی‘‘ پھر ہم رہنے لگے۔

اب 2014/ 6 اگست کو یہ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو ہم بہت خوش تھے اور یہ تھکے ہوئے تھے اور سو گئے ،میں نے ان کا موبائل دیکھنا شروع کیا، جس میں میں نے سفر کی  تصاویر دیکھیں ،ساتھ کی  تصویروں میں کسی لڑکی کی ناجائز اور بغیر کپڑوں کےتصویریں نکلیں، مجھے غصہ آیا اور میں نےان کو جگایا،وہاں میری اور ان کی لڑائی ہوئی اور چونکہ یہ نشہ کر کے سوتے ہیں تو نیند خراب ہو تو بے اختیار ہو جاتے ہیں ،انہوں نے مجھے اتنا شدید مارا کہ قتل کرنے کی دھمکیاں دینے لگ گئے اور بولے’’ جا نکل یہاں سے، طلاق ہے، طلاق ہے طلاق ہے ‘‘اور میرے بڑے بھائی کو کال کرکے بولا کہ اسے لے جائیں وہ آئے اور مجھے لے گئے جب میں اپنے  گھر گئی تو مجھے پتا چلاکہ میں حاملہ ہوں اور ہم نے سوچا کہ ہم غلطی کررہے ہیں اور صلح کافیصلہ کیا اور عبدالواحد صاحب کے پاس آئے، سارا معاملہ بیان کیا، انہوں نے ہمیں فتوی دیا کہ آپ یا تو حلف اٹھائیں یا پھر مفتی شاہدصاحب  سے فتوی لیں، ہم نے حلف اٹھایاکہ ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ جو بولاہے سچ ہے اور ہم رہنے لگے۔ اس کے بعد اللہ نے اور دو بچے دئیے ہمیں۔ رمضان 2018 میں 3رمضان کو کام والی کے پیسوں سے بات شروع ہوئی وہ ہمارے گھر آئی اور یہ غصے میں تھے پہلے سے ،میں نے اس کو کہا کہ ابھی جاؤ،میں اپنے بھائی سے کہہ کر تمہیں بھیج دیتی ہوں، اس کے جانے کے بعد یہ مجھے گالیاں دینے لگے اور میں بچوں کو کھانا کھلا رہی تھی میں صوفے پر بیٹھی تھی زور زور سے مارنا شروع کردیا، میں نے کھانا ایک جگہ رکھ کر رونا شروع کر دیا، انہوں نے اتنا زیادہ مارا کہ میرا سانس رک گیا تھا، پھر میں نے کوشش کرکے ان کوپیچھے کیا تو انہوں نے بیلٹ سے مارا اور میں نے روتے ہوئے کہا کہ میں نے اب نہیں رہنا، انہوں نے کہا’’جاپھرمیں طلاق ہے‘‘ ایک بار بولا، جس پر میں نے کہا کہ آپ طلاق نہ دیں میں خلع لوں گی یہ کہہ کر میں بچے چھوڑ کراپنی امی کے گھر آ گئی، چھ دن کے بعد معافی مانگنے کے لئے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آئے اور میں نے ان کو پوچھا کہ آپ صلح کے لیے آئے ہیں مگر آپ نےالفاظ بولے تھے پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ ’’میں طلاق دوں گا ‘‘جس پر تم نے کہا تھا کہ طلاق  نہ دو، میں خلع لے لوں گی، اب میں ان کی بات مان کر واپس آگئی۔

30 جنوری 2019 کومیرے میاں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ،میں کام کرکے فارغ ہوئی تھی ،اور کام والی کافون آیا ،تب یہ سو رہے تھے،کام  والی نے کہا کہ بھائی اٹھیں گے تو باجی ان کو کہنا کہ مجھے کام دلوا دیں اور نمبر دے دیں جو انہوں نے کہا تھا یہ جاگ نہیں رہے تھے ،بہت مشکل سے جگایا، میں نےکہاکہ وہ نہا لیں تھوڑا بہتر محسوس کریں گے یہ نہا کر آئے اور میں نے کہاکہ وہ کام والی کہہ رہی تھی نمبر دیدیں  جن کا کام اس کو دلوانا ہے ،یہ غصے سے بولے میرے پاس نہیں ہے کسی کانمبر میں نے کہا کہ نعمان جب آپ کسی کا کام کر نہیں سکتے تو امید کیوں دیتے ہیں انہوں نے کہا ’’عورت ہے، عورت بن کر رہ، میری ماں نہ بن ،رنڈی ماں کی بچی ‘‘میں نے کہا آپ کو کیا ہوا ہے ؟میں نے کہا کیا ہے؟میں اس وقت روٹیاں پکا رہی تھی انہوں نے کہابکواس نہ کر ،یہ گرم توا اٹھا کے ماروں گا تیرے منہ پر، میں نے بولا کہ آپ اب مجھے ہاتھ لگا کر دکھائیں، انہوں نے مجھے مارنا شروع کردیا اور جلتا ہواہیٹر اٹھایا ،مارنے  کے لئے تو بچے رونے لگ گئے، انہوں نے نیچے پھینک دیا اور ان کا اپنا ہاتھ تھوڑا جل گیا، اورانہوں نے کہا کہ ’’جاؤ ، طلاق ہے‘‘ اور گھر سے چلے گئے اور رات میں میری امی اور خالہ آئیں اور میں ان کے ساتھ اپنے پانچ بچے لے کر آگئی ،دس دن بچے میرے ساتھ رہے اور اب وہ میرے میاں کے ساتھ ہیں۔

یہ جو بیان میں نے لکھا ہے میں حلف اٹھانے کو تیار ہو ں کہ ہر ایک بات سچ ہے ۔آپ سے گزارش ہے میرے پانچ بچے ہیں اگر کوئی گنجائش ہے تو مہربانی کر کے ہماری رہنمائی کریں۔ شکریہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.پہلی دفعہ کے الفاظ ’’تم میرے نکاح سے فارغ ہو‘‘ سے طلاق بائن واقع ہو گئی تھی، مفتی صاحب نے نکاح پڑھایا تو نکاح کی تجدید ہو گئی مگر پہلی طلاق شمار میں رہی۔

  1. دوسری دفعہ نشے کی حالت میں بولے گئے طلاق کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔کیونکہ اس وقت نکاح قائم نہیں تھا۔

3.تیسری دفعہ حمل کی حالت میں تین بار طلاق کا لفظ بولا، اس حالت میں اگرچہ خاوند غصے میں تھا مگر یہ غصے کی وہ حالت نہیں جس میں انسان اپنے آپ سے باہر ہوجائے اور ہوش وحواس گم کر بیٹھے، اس لئے اس حالت میں دی گئی طلاق معتبر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس مرحلے پرپہنچ کر تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،جن کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی رجوع گنجائش ہے۔

حاشية ابن عابدين (3/ 244)

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه

 الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء

 من أقواله۔

  الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه

 ملخصا من شرح الغاية الحنبلية

 لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال ويقع طلاق من غضب خلافا لابن القيم اه  وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved