- فتوی نمبر: 25-320
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان
استفتاء
میری اور میری بیوی کی آپس میں نہ بننے کی وجہ سے اسے میں اس کے میکے چھوڑ آیا ہوں ، اور مزيد ساتھ رہنے کا ارادہ بھی نہیں ، گھر ان لوگوں کا اپنا ہے ، اور کھانا بھی مشترکہ ہی بنتاہے ۔
1) اگر میں بیوی کو طلاق دے دوں تو کیا میرے اوپر نان نفقہ دینا بنتا ہے؟
2) اگر دینا بنتا ہے تو ماہانہ کتنا دینا بنتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی کی عدت کا خرچہ آپ کے ذمہ واجب ہے کیونکہ آپ خود اپنی بیوی کو میکے چھوڑ کر آئے ہیں۔
2) خرچہ کی مقدار متعین نہیں بلکہ جتنا شوہر کے حالات کے مناسب ہو اتنا واجب ہے ۔
ہندیہ (557/1) میں ہے:”(الفصل الثالث في نفقة المعتدة) المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكني كان الطلاق رجعيا او بائنا او ثلاثا، حاملا كانت المراة او لم تكن، كذا في فتاوي قاضيخان“درمختار مع الرد (340/5) میں ہے:”و تجب لمطلقة الرجعي و البائن …قوله (و تجب لمطلقة الرجعي و البائن) … وفي المجتبى: نفقة العدة كنفقة النكاح. وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود، وأطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث أو أقل كما في الخانية.“درمختار مع الرد (287/5) میں ہے:”(ولو هي في بيت أَبيها) إذا لم يطالبها الزوج بالنقلة به يفتى. ……. (وخارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتي تعود. قوله (إذا لم يطالبها إلخ) الأخصر والأظهر أن يقول به يفتى إذا لم تمتنع من النقلة بغير حق“فتاوی مفتی محمود (349/7) میں ہے:’’ عدت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، اس کی کوئی تعیین شرط نہیں، اتنا ہو جتنا شوہر کے حالات کے مناسب ہو۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved