• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تم میری طرف سے فارغ ہو اور میسج کے ذریعے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب میرا نام *****  ہے میں طلاق کے ایک مسئلے کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا ہوں جسکی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں ۔

میری بیوی جسکا نام ***** ہے  اسکو میرے متعلق ایک بد گمانی پچھلے ایک سال سے پیدا ہو گئی ہے کہ میں کسی دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور میں اسکو چھوڑ دونگا ۔ میں نے اسکی غلط فہمی دور کرنے کے لیے سال میں کئی دفعہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ اسکی محض غلط فہمی ہے اس میں رتی بھر بھی سچائی نہیں یہاں تک کہ دو دفعہ قرآن پاک پہ ہاتھ رکھواکر بھی مجھ سے قسم لی گئی ۔بچوں کی قسم لی گئی میں نے اپنی زندہ ماں تک کی بھی قسم کھائی لیکن اسکے ذہن سے یہ غلط فہمی دور نہیںہوئی۔

پھر اسی دوران پتہ لگا کہ وہ حاملہ ہو چکی ہے لیکن اپنی بد گمانی پر اب وہ  طلاق کا  تقاضا کرنے لگی ۔ حمل کے آٹھ نو مہینوں میں  بہت مرتبہ یہ مطالبہ کرتی رہی اور میں نے ہر دفعہ بڑی مشکل کے ساتھ اسکو اس کام سے روکا یہاں تک کہ اس نے مجھ پر ایک دو دفعہ ہاتھ بھی اٹھایا جسکو میں یہ سمجھ کر درگزر کر گیا کہ یہ غلط فہمی کا شکار ہے جب اسکی یہ غلط فہمی دور ہو گی تو اس کو بہت شرمندگی ہو گی اور ایسا کئی دفعہ ہوا بھی کہ اس نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن کچھ دنوں بعد پھر و ہی مطالبہ شروع ہو جاتا ہے اورہر دفعہ پچھلی دفعہ سے زیادہ شدت کے ساتھ۔ اور میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ جب یہ مطالبہ کر رہی ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے حواس میں  نہیں ہے اور وہ زیادہ تر جمعرات؍جمعہ کو یہ  کرتی ہے۔

جناب میری شادی کو  تقریبا 16 سال ہو گئے ہیں اور اس دوران کئی دفعہ ہمارے مختلف وجوہات پر گھریلو جھگڑے ہوئے اور وہ ایسے ہی آپے سے باہر ہو جاتی جیسے کہ کوئی اپنے حواس میں نہ ہو۔سر پھر بچہ کی پیدائش ہو گئی اور اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا اور  دس دن سکون سے گزر گئے پھر انکو 18 جنوری کو ہسپتال لے جانا تھا اور انکے آپریشن کے ٹانکے کھلوانے تھے۔ 17 جنوری کو انکا پھر و ہی مطالبہ اور وہی شدت بڑی مشکل سے رات گزاری۔ اگلی صبح پھر و ہی رویہ ہسپتال جاتے ہوے پورے رستے میں مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا یہاں تک کہ غلیظ زبان بھی استعمال کی جسکو میں جاتے ہوئے خاموشی کے ساتھ سنتا رہا۔ ہسپتال پہنچے اور اس نے گاڑی سے اترتے وقت کہا کہ کاغذ اور پنسل لے آو اور واپسی پہ مجھے آج طلاق لکھ کے دو ۔اس بات کو میں نے نظر انداز کر دیا ۔ تقریبا آدھ گھنٹے کے بعد یہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں کاغذ اور پنسل تھی جس پر اس نے اپنے ہاتھ سے یہ تحریر کیا۔

"میں  ***** کو طلاق دیتا ہوں”

اور مجھے اس پر دستخط کرنے کو کہا جس پر میں نے انکار کر دیا اور ہم اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس نے راستے میں و ہی تقاضا اور وہی رویہ پھر اختیار کر لیا یہاں تک کہ اب گاڑی  کا اسٹیئرنگ پکڑ لیا اور کہا کہ ابھی دستخط کرو ۔ گاڑی چل رہی تھی اور اسکی گود میں چھوٹا بچہ بھی تھا میں نے فوری طور پر گاڑی سائڈ پہ روکی اور اسکو سمجھایا کہ گھر جا کے یہ بات کرتے ہیں لیکن  وہ نہیں مانی اور کہا آج تم ادھر ہی اسکا فیصلہ کرو ورنہ میں گاڑی سے نہیں اتروں گی ۔ اب راستے پہ آتے جاتے لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے اور میں بے بس اسکو سمجھا رہا تھا لیکن وہ تو کوئی بات سمجھنے کو تیار ہی نہ تھی۔ اور ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی میرے سالے کی بیوی جو ہمارے ساتھ ہسپتال گئی تھی وہ بھی اسکو سمجھا رہی تھی مگر سب بے سود۔ میرے سالے کی بیوی سر راہ ہوتے ہوئے اس تماشے سے بہت زیادہ پریشان تھی اور اس نے اپنی نند یعنی میری بیوی سے کہا کہ میں پھر اکیلی گھر چلی جاتی ہوں اور وہ دو دفعہ گاڑی سے اتری بھی لیکن میری درخواست پہ دوبارہ بیٹھ گئی مگر میری بیوی عالیہ پہ کسی چیزکا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا جناب ایک بات بتانا بھول گیا کہ پچھلے 17 سال میں ،میں پہلے بھی شاید ایک یا دو مرتبہ طلاق دے چکا ہوں۔

وضاحت مطلوب ہے :

ان طلاقوں کی مکمل تفصیل مہیا کریں

جناب یہ تقریبا 10۔11 سال پرانی بات  ہے اس لیئے بلکل exact شاید یاد نہیں  لیکن میری بیوی بتا رہی ہے کہ لڑائی کے دوران میں نے اسے یہ الفاظ ایک سے دو مرتبہ کہے ہونگے ۔

"***** تم میری طرف سے فارغ ہو”

جناب جیسے میں نے پچھلے پیغام میں لکھا ہے کہ وہ غصہ میں اپنے حواس میں نہیں ہوتی  اور وہ کچھ عرصے تک دوائی بھی کھاتی رہی ہے۔اور وہ جب نارمل ہوتی تو اپنے کیئے پر شرمندہ بھی ہوتی ۔ اور میں بھی پچھلے ایک سال سے اسے سمجھا رہا تھا جس میں کافی حد تک کامیاب بھی تھا اگر اس دن بھی یہ سارا تماشا سر راہ نہ ہوتا اور میں راہ چلتے لوگوں سے شرمندگی محسوس نہ کر رہا ہوتا اور نہ میرے سالے کی بیوی جو ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی بار بار اکیلی گھر جانے کا کہتی تو شاید میں اتنے دباؤ میں نہ آتا اور نہ اس کاغذ پہ دستخط کرتا کیونکہ میں اسکو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا ۔جناب یہ سارا کام ایک دباؤ میں آ کر ہوا۔اور جناب آپ کو جو پہلا پیغام  بھیجا تھا وہ مجھ سے  delete ہو گیا ہے برآئے مہربانی وہ مجھے واپس send کر دیں۔اور سارے مسئلے کا ان تمام حالات و واقعات کی روشنی میں فتوی(جواب) دیں کیونکہ میں طلاق دینا نہیں چاہتا تھا اور میں نے اسے زبان سے طلاق نہیں دی ۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ سب رل جائیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اب سے دس،گیارہ سال پہلے خاوند نے لڑائی کے دوران دو دفعہ یہ کہا ’’عالیہ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی تھی جس کی وجہ سے پہلا نکاح ختم ہو گیا تھا اور عدت بھی گذر گئی تھی۔ حالیہ واقعے میں دی گئی طلاق نکاح ختم ہونے اور عدت گذرنے کے بعد ہے اس لیے وہ معتبر نہیں ۔نیز یہ طلاق تحریر غیر مرسوم کی ہے جس پر خاوند نے بغیر نیت طلاق دستخط کیے ہیں اور دستخط بھی دبائو میں کیے ہیں اس لیے بھی اس تحریر سے کوئی طلاق واقع نہیںہوئی۔اب حکم یہ ہے کہ آپ آپس میں باضابطہ نکاح کرکے جس میں حق مہر بھی ہو گا اور گواہ بھی ہوں گے اکھٹے رہ سکتے ہیں نکاح ہونے کے بعدآئندہ کے لیے یہ طلاق شمارمیں رہے گی ۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved