• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کھانے سے پہلے نمک کھانا

استفتاء

کیا کھانا کھانے سے پہلے نمک کھانا سنت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کھاناکھانے سے پہلے نمک کھانا سنت نہیں بلکہ کھانے کے آداب میں سے ہے۔

امدادالفتاوی (/4112)میں ہے:

سوال(٩٧)کھانا کھانے کی ابتداء نمک کھانے سے کرنے کو اور ختم بھی نمک کھانے سے کرنے کو اکثر کتب متداولہ معتبرہ میں منجملہ آداب وسنن طعام لکھاہے۔احیاءالعلوم ،کیمیائے سعادت ،ردالمحتار، فتاوی عالمگیریہ،دارالمنتقی، عین العلم وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے،مگر ایک شخص اس کو نہیں مانتے،وہ کہتے ہیں کہ جب تک ثبوت اس کا قول یا فعل رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی کے قول یا فعل سے نہ ملے، محض فقھاءحنفیہ وبعضے صوفیہ کے لکھنے پر اس کا ادب و مستحب ہونا قابل تسلیم ووثوق نہیں۔ ایسے حال میں علماء کرام سے دو سوال ہیں، اول یہ کہ قول قائل مذکور کا صحیح ہے یا نہیں بتقدیر ثانی کیا غلطی خیال وقول میں قائل مذکور کے ہےاور اس کا جواب مسکت اور تشفی بخش کیا ہےدوم اگر کسی قول یا فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی کے قول یا فعل سے ثبوت سنیت،استحباب ابتدا و اختتام بہ نمک نظر سے آپ حضرات کی گزرا ہو تو ،بہ نقل اس کے رفع شبہہ فرمائیے، بینوا توجروا ؟

الجواب. في احياءالعلوم و يبدء بالملح ويختم به في شرحه للزبيدي هكذا نقله صاحب القوت وصاحب العوارف قال الاخيرروي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال يا علي ابدأ طعامك بالملح و اختم بالملح فان الملح شفاء من سبعين داء منها الجنون والجزام والبرص ووجع البطن ووجع الاضراس، وذكره ابن الجوزي في الموضوعات وسياتي الكلام عليه في الفصل الاخير اخرجه البيهقي في الشعب بلفظ القوت الخ وروي ابن جوزي في الموضوعات الخ ثم قال لا يصح والمتهم عبد الله بن احمد الطائي  وابوه فانهما يرويان  نسخة من أهل البيت كلها باطلة آھ وفي ذيل اللآلي للسيوطي الموضوع لایراد الموضوعات من أكل الملح قبل الطعام وبعدالطعام فقدامن من ثلثمائةوستين نوعا من الداء اهونها الجذام والبرص آہ ان سب عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شخص کا یہ قول صحیح ہے، اور اس کا ثبوت کہیں نظر سے نہیں گزرا، باقی اس سے فقہاء وصوفیاء پر اعتراض بھی نہیں ہو سکتا، اس واسطے کہ لکل فن رجال، اور ہر فقیہ وصوفی کے لیے محدث ہونا لازم نہیں،البتہ فقیہ  بمعنی مجتہد کے لئے احادیث احکام پر مطلع ہو نا ضروری ہے ،سو یہ ادب مجتہد مذہب سے منقول بھی نہیں، اس لیے ان پر بھی کوئی شبہ نہیں ہوسکتا،نیز اس سے کتب مذہب کا غیر معتبر ہونا بھی لازم نہیں آتا، کیونکہ وہ کتب تدوین مذہب منقول عن المجتہد کے لئے موضوع ہیں، اور یہ امور خود مجتہد سے منقول نہیں۔اور یہ سب کلام بابت عدم صحت روایت مسئول عنہا اور صحت قول قائل مذکورفی السوال باعتبار اس روایت کے بعینہ منقول صریح ومرفوع ہونے کے ہے۔ اور باعتبار اس قول کے صحیح فی نفسہ ہونے کے ہے، باقی من وجہ موقوفا صریحااورمرفوعااستنباطا بانضمام بعض قواعد صحیحہ اس روایت کی اصل اور ماخذ ثابت ہے اور اس قائل کامقصود اگر کتب فقہ وتصوف کے معتبر ہونے کی نفی ہوتووہ قول صحیح نہیں ،چنانچہ وہ روایت موقوفا حضرت علی (رض)سےبدیں لفظ احیاء میں منقول ہے۔من ابتدا غذاءه بالملح اذهب الله عنه سبعين نوعا من البلاء،اور زبیدی نے بیہقی سے اس کی تخریج کرکے کوئی کلام نہیں کیا اور مرفوعا مقاصد حسنہ میں بہ تخریج ابن ماجہ وابویعلی وطبرانی وقضاعی بروایت حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ الفاظ وارد ہیں سیدادامکم  الملح  اور اصل مقتضی سیادت کا یہ ہے کہ وہ اول اور آخر دونوں محل میں ہواور بہت مواقع پر تکویناو تشریعا اس کا اعتبار بھی کیا گیا ہے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اول الانبیاء نورا وآخرا لانبیاءظہورا ہیں۔ اور خود طعام کے قبل اور بعد ذکر اللہ وارد ہے، اور دعا کے شروع اور ختم دونوں پر درود شریف مامور بہ ہے، اسی طرح بہت سےاحکام ہیں ،پس یہ ماخذ ہو سکتا ہے نمک سے ابتداء اور اس پر اختتام کرنے کا، لیکن یہ عبادات سے نہیں، اس معنی کر استحباب کا حکم نہیں کر سکتے لیکن چونکہ عادات مرضیہ موافقہ للقواعد الشرعیہ میں سےہے، اس لئے مستحب بمعنی محبوب و مرغوب فیہ کہہ سکتے ہیں،اوراس سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ قائل قول مذکور کا مقصود اگر اس کی بالکلیہ نفی یاکتب مذہب کے غیر معتبر ہونے کا دعوی ہو تو وہ قول صحیح نہیں۔

احسن الفتاویٰ (91/9)میں ہے:

کھانا کھانے سے پہلے نمک چکھنا:

 سوال: کھانے کے ابتدا وانتہاء میں نمک چکھنا سنت ہے یا نہیں؟اگر مسنون یا مستحب نہیں تو شامیہ، احیاءالعلوم اور دیگر کتب معتبرہ میں کھانےکے آداب میں کیوں لکھا ہے اس کا کیا جواب ہے ؟بینوا توجروا۔

الجواب:کھانے کی ابتدا وانتہاء میں نمک چکھنے کے بارے میں جو اقوال کتب متداولہ میں مذکور ہیں وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اس بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں سب موضوعہ ہیں۔ لہذا ابتداءوانتہاءطعام بالملح کو سنت قرار دینا تسامح ہے ۔

في حاشيةفردوس الاخبار سيد ادامكم الملح وفي اسناده عيسى بن ابى عيسى متروك كما في التقريب لابن حجر رحمه الله تعالى وقال الذهبي في ترجمة عيسى ضعفه احمد وغيره وقال الفلاس والنسائي متروك (فردوس الاخبار ٤٦٣/٢)وقال العلامه السيوطي رحمه الله تعالى حديث يا علي عليك بالملح فانه شفاء من سبعين داء الجزام والبرص والجنون لايصح والمتهم به عبد الله بن احمد عامر او ابوه فانهما يرويان النسخة عن اهل البيت كلهاباطلة(اللآلى المصنوعۃ٢١١/٢ )وقال الملا علي القاري رحمه الله تعالى: ومنها وصايا على كلها موضوعةسوي الحديث الاول وهو يا علي انت مني بمنزلة هارون من موسى غيرانه لا نبي بعدي قال الصنعاني ومنها وصايا على كلها التي اولها ياعلى لفلان ثلاث علامات(الاسرار المرفوعہ٣٨٨)وقال العلامة الشوكاني رحمه الله تعالى: حديث يا علي عليك بالملح فانه شفاء من سبعين داء هو موضوع(الفوائد المجموعۃ١٦١)وفي التعليقات عن الكشف الالهي :عليكم بالملح فانه شفاء من سبعين داء منه الجنون والجذام والبرص وقال عجلوني ولعله موضوع ونص ابن القيم على انه موضوع(الكشف الالهی٣٩٢/١)

فيض القدير للمناوی(14/ 305)میں ہے:

(سيدإدامكم الملح)لأن به صلاح الأطعمةوطيبهاوالآدمي لايمكنه أن يقوم بالحلاوةفجعل الله له الملح مزاجاللأشياءلينتظم حاله لكون غالب الإدام إنمايصلح به وسيد الشئ هوالذي يصلحه ويقوم عليه،وأخذمنه الغزالي:أن من آداب الأكل أن يبدأويختم به .

بحرالرائق(8/209)میں ہے:

ومن السنةأن يبدأبالملح ويختم بالملح.

المحیط البرہانی(10/158)میں ہے:

ومن السنةأن يبدأبالملح ويختم بالملح.

السراج المنیر شرح جامع الصغیر(2/322)میں ہے:

(سيدإدامكم الملح)…وعدفی الاحیاءمن آداب الأكل أن يبدأبالملح ويختم به.

مسائل بہشتی زیور(2/439)میں ہے:

مسئلہ: ایک سنت یہ ہےکہ نمک کےساتھ کھاناشروع کرےاورنمک ہی پرختم کرے۔

فتاویٰ محمودیہ(18/71)میں ہے:

نمکین سےابتداکرےنمکین ہی پرختم کرے:من السنةأن يبدأبالملح ويختم بالملح.

فتاویٰ دارالعلوم دیوبندویب سائٹ:

نمک سےکھانےکےآغازاوراختتام کومنجملہ آداب طعام کےشمارکرناصحیح ہے،البتہ اس عمل کوسنت نہیں کہاجائےگا۔اورجن فقہاءنےاس کوسنت کہاہےاس سےان کی مراد ادب طعام ہےنہ یہ کہ یہ طریقہ حضورسےثابت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved