• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زوجہ متعنت کاخلع لینے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام*****ہے۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کر رکھا ہے۔ میری شادی 11 فروری2017 کو***** سے ہوئی، *****سے جب میرا رشتہ طے ہوا تو وہ سعودی عرب میں ملازمت کر رہا تھا۔طے یہ ہوا تھا کہ وہ شادی کے فورا بعد مجھے سعودی عرب بلا لے گا لیکن وہ شادی سے پہلے ہی 5 جنوری2017 کو اچانک واپس آگیا اور کہا کہ میں چھٹی پر آیا ہوں، مارچ کے پہلے ہفتے واپس چلا جاؤں گا لیکن درحقیقت ایسا نہ تھا بلکہ اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا لیکن اس نے اور اس کے گھر والوں نے اس بات کو چھپائے رکھا، اس معاملہ پر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہا، ایک ہفتے بعد ہی مطالبہ ہوا کہ تم پڑھی لکھی ہو ملازمت کرو، گھر کے باقی افراد بھی اس کے ساتھ تھے ،خیر نوکری کی تلاش شروع ہوئی کئی اسکولوں میں انٹرویو دیئے، آخر ایک جگہ معاملہ طے پا گیا۔

اسی اثناء میں اللہ تعالی نے اولاد کی خوشخبری سے نواز دیا ،اس سکول میں کلاس روم دوسری منزل پر تھا اور ڈاکٹر نے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کیا، لہذا میں نے ملازمت نہ کرنے کا عندیہ دے دیا، اس پر میرے شوہر نے کہا کہ ہمیں بچے کی ضرورت نہیں اپریشن کروا دو، ساس بھی بیٹے کے ساتھ ملی ہوئی تھی، میرے والدین نے پتہ چلنے پر احتجاج کیا تو ساس کہنے لگی کہ وہ پریشان ہے اس لئے کہہ دیا۔ یہیں سے ناچاقی کا آغاز ہو گیا میرے پاس جو بھی رقم تھی وہ اس نے مختلف حیلے بہانو ں سے لے لی،حتی کہ دوا وغیرہ کے لیے بھی جو پیسے میرے والدین دیتے وہ چرا لیتا ،جب میں اس بارے میں کہتی تو مجھ سے لڑائی کرتا ،اکثر وہ میرے فون سے میسج کر دیتاکہ بیلنس ختم ہو گیا ہے کروا دو، بھائی بیلنس بھیج دیتا ،بعد میں پتہ چلتا کہ یہ میرے شوہر نے کیا تھا۔ میرے والد نے کئی جگہ ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ اور اس کی ماں بضد تھی کہ یہ بیرون ملک ہی کام کرے گا۔

جناب والا میرا حق مہر 50 ہزار روپے مقرر ہوا تھا جو اس نے ادا نہ کیا بلکہ کہاکہ اس سے کیا ہوتاہے، لکھوانا تھا لکھوا دیا، نان نفقہ کی مد میں5000 روپے ماہوار لکھا گیا لیکن کبھی اس نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔ میرے والد جو بھی کام بتاتے تو وہ کہتا ہے کہ یہ میرے سٹائل کا نہیں، تمہارا باپ مجھے کیا سمجھتا ہے اور کئی کئی راتیں وہ مجھے بستر سے الگ کردیتا، میں زمین پر لیٹتی اور روتی رہتی۔

ماہ اگست 2017 کو کسی نے امید دلائی کہ تمہیں باہر بھجوا دیتے ہیں اس پر اس نے مطالبہ کیا کہ زیور وغیرہ بیچ دیتے ہیں جس کی میں نے دبے لفظوں میں مخالفت کی لیکن انہوں نے اپنے گھر کا زیور اور میرے والد کی دی ہوئی انگوٹھی فروخت کردیں جبکہ نکاح نامہ میں دونوں اطراف کا زیور میری ملکیت لکھا گیا تھا،اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ بقایا زیور جو تمہارے گھر پر ہے لاؤ مجھے اس کی بھی ضرورت ہے۔ اس سارے معاملے میں گھر والے اس کے ساتھ تھے ،میں نے اس بات سے انکار کیا تو اس نے 18 اگست 2017 کو میرے فون سے میرے والد کا نمبر ملایا اور کہا کہ بات کرو اور کہو کہ وہ تمہیں آکر لے جائے اور واپسی پر زیور لے کر آنا ورنہ تمہیں اور تمہارے باپ کو گھر میں نہیں گھسنے دوں گا۔ میرے والد آئے اور مجھے چند دن کے لیے گھر لے گئے تاکہ وہ میرے شوہر کو سمجھا سکیں کہ یہ مناسب نہیں ۔اس وقت میں پانچ ماہ کی حاملہ تھی، میری ساس انتہائی لالچی خاتون ہے۔چلنے لگی تو بیٹے سے کہا کہ اس سے موبائل فون اور کانوں سے بالیاں لے لو جو کہ میرے والد کی دی ہوئی تھی لیکن وہ میرے انکار پر ایسا نہ کر سکا اور میں اپنے والد کے گھر آگئی متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے بسانے سے انکار کر دیا،میرے شوہر نے کہا کہ ہمارے مطالبات پورے کرو تو آجاؤ، اس پر معززین سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے پنچایت کا بندوبست کیا لیکن پنچایت میں بھی میرے شوہر اور ان کے گھر والوں نے ہماری بات یہ کہہ کر سننے سے انکار کر دیا کہ یہ جھوٹے ہیں اور مارنے کے لئے میرے والد پر ہاتھ اٹھا لیا جس پر وہ واپس آگئے ۔میرا شوہر اس دوران باہر جانے کی کوشش میں لگا رہا، میرا اس سے فون پر رابطہ ہوا تو کہنے لگا کہ میں باہر چلا جاؤں گا تو تمہیں اپنے والدین کے گھر رہنا ہوگا اور ملازمت کر کے اپنے اخراجات پورے کرنا ہوں گے، کیونکہ ہماری فیملی کافی مقروض ہے، پہلے میں قرض اتاروں گا۔

اس دوران اس نے مجھے کبھی آباد کرنے کی کوشش نہ کی اور نومبر 2017 کو بغیر بتائے ملک چھوڑ کر چلا گیا اور کبھی رابطہ نہ کیا بلکہ میرا فون بلاک کردیا ۔دسمبر 2018 میں اللہ نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ان کے گھر والوں کو اطلاع دی لیکن کوئی نہ آیا، آج تک کسی نے بھی بچے کو نہ تو دیکھا اور نہ کوئی خرچ دیا۔ اس پر بھی میرے شوہر نے کوئی رابطہ نہ کیا اس پر میں نے خلع کیلئے عدالت سے رجوع کیا کہ شاید عدالت کے دباؤ پر ہی رابطہ کرلیں لیکن آج تک انہوں نے نہ تو رابطہ کیا اور نہ عدالت میں حاضر ہوئے۔ عدالت نے تقریبا پندرہ ماہ تک انتظار کرنے کے بعد مجھے 29/1/2019کو خلع کی ڈگری دے دی اس دوران ان کا وکیل حاضر ہوتا رہا اور کہا کہ میرا موکل ملک سے باہر ہے۔

جناب والا اس کا والد جوانی میں ریس پر جوا کھیلتا تھا جس کا ہمیں علم نہ ہوا ،شوہر کی بڑی بہن نے بھی اپنے شوہر سے خلع لے رکھا ہے جس کے دو لڑکے ہیں،اس کا بھی علم بعد میں ہوا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اس کا خاوند کینیڈا میں ہے، اس لئے یہ یہاں رہتی ہے دوسری بہن نے انٹرنیٹ پر دوستی کر کے نکاح کرلیا تھا اور پھر بعد میں اس نے بھی خلع لے لیا علاقے میں بھی ان کی شہرت اچھی نہیں ہے، بڑے بھائی کی بیوی شیعہ ہے، پہلے میرے شوہر کی اس کی بہن سے منگنی ہوئی تھی جو کسی وجہ سے ٹوٹ گئی، اب کسی ذریعہ سے پتہ چلا ہے کہ وہ دوبارہ یہ رشتہ کرنا چاہتے ہیں میرا شوہر بھی آج کل فیس بک پر اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کر رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ساری قباحتیں تھیں تو ہم نے یہ رشتہ کیوں کیا ؟جناب اگر ہمیں علم ہوتا توہم ایسا کیوں کرتے یہ سب بعد میں پتہ چلا ،اب جبکہ عدالت سے خلع مل گیا ہے اور ڈگری کی کاپی ساتھ منسلک ہے ،شرعی حیثیت واضح کریں تاکہ تنسیخ نکاح کا اطمینان ہو سکے ،میرے وہاں رہنے میں عقیدے اور ایمان کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ شکریہ

وضاحت مطلوب ہے :

کیا دوران لڑائی یا بحث و تکرار خاوند نے کبھی طلاق کا لفظ استعمال کیا یا گالم گلوچ کی ہویا طلاق کی دھمکی دی ہو؟ غرض اس قسم کا کوئی لفظ بھی بولا ہو تو بتادیں ؟

جواب وضاحت :

دوران تکرار کبھی گالم گلوچ نہیں ہوئی نہ ہی کبھی طلاق کا لفظ استعمال کیا مگر یہ کہا کہ اپنے گھر کا زیور لاؤ ورنہ تمہارا اس گھر میں کوئی مقام نہیں، اپنے گھر جاؤ ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا (۱)شوہر نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور (۲)بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف بھی نہیں کیا تھا(۳) اور تنسیخ نکاح کی درخواست بھی اس وجہ سے دی تھی کہ اس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا تھا (۴)اور عدالت کے کہنے پر بھی شوہر نان نفقہ دینے پر آمادہ نہ ہوا (۵)اور عدالت نے نان نفقہ نہ دینے کی بنا(بنیاد)پر تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا (۶)اور شوہر بیوی کی عدت گزرنے تک نان نفقہ دینے پر آمادہ نہیںہوا تو ایسی صورت میں عدالت کا فیصلہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار ہو گا جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہو گی ۔چنانچہ حیلہ ناجزہ (ص:72طبع دارالاشاعت ) میں ہے:

’’زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے بیوی کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے)کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کرلے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔۔۔۔اور سخت مجبوری کی دوصورتیں ہیں :ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہوالخ‘‘

تنبیہ:         مذکورہ صورت میں اگر چہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہے لیکن مالکیہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ’’حیلہ ناجزہ ‘‘میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے ۔چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ(72) میں ہے :

وهذاا لحکم عند المالکیة لا یختص بخشیةالزنا وافلاس الزوجه لکن لم نأخذ مذهبهم علی الاطلاق بل أخذناه حیث وجدت الضروة المسوغة للخروج عن المذهب‘‘

ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق اس لیے لیا ہے کہ اب عدالتیں انپے فیصلوںمیں اس شرط کو (یعنی عورت کے حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش کی قدرت کو )ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved