• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سونے کے کاروبار کے متعلق سوالات

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں:

۱۔ میرا سونے کا کاروبار ہے میں خالص سونا خریدتا اور بیچتا ہوں اس کاروبار میں کچھ دوسر ے لوگوں نے بھی پیسے لگائے ہوئے ہیں لگانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھے پیسے دے دیتے ہیں میں ان کو اپنے حساب میں لکھ لیتا ہوں اور اپنے استعمال میں لے آتا ہوں ۔پھرجب سونا سستا ہوتا ہے تو وہ مجھ سے فون کرکے ان پیسوں کے بدلے سونا خرید لیتے ہیں سونا میرے پاس ہوتا ہے میں ان کے حساب میں اتنا سونا لکھ لیتا ہوں کوئی سونا الگ نہیںکرتا بلکہ کل سونے کے حساب میں سے ان کے نام پر اتنا لکھ لیا جاتا ہے پھر جب سونا مہنگا ہوتا ہے تو وہ لوگ فون پر مجھے وہ سونا بیچ دیتے ہیں تو میں ان کے حساب میںرقم لکھ لیتا ہوںاور جو پرافٹ ہوتا ہے وہ ان کو دے دیتا ہوں کبھی نقصان بھی ہوتا ہے جو ان کے کل حساب میں سے پورا کرلیا جاتا ہے ۔بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے حساب میں تھوڑے ہوتے ہیں وہ مجھ سے سونا زیادہ خریدلیتے ہیں تو میں ان کے حساب میں آنے والے پیسے بھی لکھ لیتا ہوں پھر بعض دفعہ وہ پیسے آنے سے پہلے بھی مجھے سوناواپس بیچ دیتے ہیں۔

۲۔ دوسراسوال یہ ہے کہ میں نے جب خود سونا خریدنا ہوتا ہے اپنے لیے تو اس میں یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ میں نے مثلا فیصل آباد سے جمعرات والے دن پیر کے دن کا سونا آج کے حساب سے خرید لیتا ہوں تو پیر والے دن جب وہ سونا لے کر آتا ہے تو میں اسے پیسے دے دیتا ہوں ۔

۳۔            بعض دفعہ لیبارٹری والے کے پاس زیور رینی ہوتا ہے ہم اس سے سونا مثلا آٹھ تولہ خرید لیتے ہیں جو وہ رینی سوناصاف کرکے اگلے دن یا اس دن ہمیں دے دیتا ہے کبھی ہم پیسے سودے کے وقت دے دیتے ہیں کبھی بعد میں دیتے ہیں سوداہم مطلقا کرتے ہیں کسی رینی کی طرف نسبت کرکے نہیں کرتے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سونے کی خریدوفروخت میں شریعت کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر سونے کی خریدوفروخت سونے یا چاندی کے بدلے میں ہو رہی ہو تو دونوں طرف کے سونے یا چاندی پر سودے کی مجلس میں قبضہ کرنا ضروری ہے اور اگر سونے کی خریدوفروخت روپوں ،پیسوں میں ہو رہی ہو تو سودے کی مجلس میں سونے پر یا روپوں ،پیسوں پرقبضہ کرنا ضروری ہے جن صورتوں میں نہ سونے پراور نہ روپوں پیسوں پر قبضہ ہو وہ صورتیں جائز نہیں اس اصول کے پیش نظر سونے کی خریدوفروخت کی جو صورتیں آپ نے ذکر کی ہیں ان کا حکم درج ذیل ہے :

۱۔ سونے کے کا روبار میں دوسرے لوگوںکے پیسے لگانے کامذکورہ طریقہ جائز نہیں ہے ،کیونکہ ان لوگوں سے پیسہ لے کر جب آپ استعمال کرلیتے ہیں تو وہ پیسہ آپ کے ذمے قرض بن جاتا ہے پھر اس قرض کے بدلے میں جب آپ ان کو فون پر اپنا سونا بیچتے ہیں تو یہ لوگ اس سونے پر قبضہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے مذکورہ طریقہ شریعت کی نظر میں ادھار کی ادھار کے بدلے خرید وفروخت کی صورت بن جاتا ہے اور شریعت میں اس طریقے سے منع کیا گیا ہے ۔

چنانچہ فقہ البیوع (342/7)میں ہے:

هذا اذا بیع الدین من الدین بثمن حال اما بیع الدین منه بثمن مؤجل فلا یجوز لانه یؤدی الی بیع الکالی بالکالی ۔۔۔ولایقال ان الدین مقبوض للمدیون من قبل فلا یؤدی الی بیع الکالی بالکالی لان الدین مادام دینا فی ذمة المدین لا یعتبر عینا ولهذا ذکر وان الدین الذی لرب السلم علی المسلم الیه لایجوز ان یکون راس مال السلم۔

پھر جب آپ ان انویسٹروں سے ان کا خریداہوا سونادوبارہ خریدتے ہیں تو یہ خریدوفروخت بھی جائز نہیں، کیونکہ انویسٹر پہلی خرید وفروخت کے جائز نہ ہونے کی وجہ سے اس سونے کے مالک ہی نہ بنے تھے لہذا ان کا غیر مملوک سونے کو بیچنا جائز نہیں ۔

بدائع الصنائع (339/4)

ومنها ان یکون مملوکا لان البیع تملیک فلاینعقد فیما لیس بمملوک ۔

اور جس صورت میں انویسٹر آپ کے پاس موجود اپنے پیسوں سے زیادہ کا سونا خریدتے ہیںتویہ صورت بھی جائز نہیں اس میں بھی وہی خرابیاں ہیں جو سابقہ صورتوں میں تھیں ۔غرض سونے کی پیسوںکے بدلے خرید وفروخت میں یہ ضروری ہے کہ جس وقت خریدوفروخت ہورہی ہو اسی مجلس میں یا تو کل پیسوں پر قبضہ ہو جائے (پہلے سے جو پیسے دیئے ہوئے ہیں جو کہ قرض بن چکے ہیں وہ کافی نہیں)یا اسی مجلس میں کل سونے پر قبضہ ہوجائے۔

۲۔ یہ صورت بھی جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں ایک تو سودے کی مجلس میں نہ سونے پر قبضہ ہوتا ہے اور نہ پیسوں پر قبضہ ہوتا ہے ۔اور دوسرے یہ مستقبل کی تاریخ میں سودا کرنے کی صورت ہے جو کہ جائز نہیں ۔

في الدر551/7

ومالاتصح اضافته الي المستقبل عشرۃالبيع۔لانها تمليکات للحال فلا تضاف للاستقبال۔

۳۔            مذکورہ صورت بھی جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی سونے کی خریدوفروخت کے وقت نہ سونے پر قبضہ ہوتا ہے اور نہ پیسوں پر ۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved