• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

پلازہ میں نمازِ جمعہ ادا کرنا

استفتاء

بندہ ایک پلازہ کی مسجد میں بطور خطیب وامام کے فرائض سر انجام دے رہا ہے ۔جبکہ عالم نہیں ہے لیکن پلازہ انتظامیہ کی طرف سے نماز جمعہ پڑھانے کا حکم ہے اور جمعہ بھی پڑھا رہا ہے جس مسجد میں بندہ امامت کے فرئض انجام دے رہا ہے اس پلازہ کے چودہ فلور ہیں اور اس پلازہ کے آخری فلور پر مسجد بنائی گئی ہے ویسے  مسجد پلازہ کے نقشہ میں نہیں ہے لیکن بعد میں بنائی گئی ہے اور جس فلور پر مسجد بنائی گئی ہے اس کے اوپر ہیلی پیڈ بنایا گیا ہے اور کوئی بلڈنگ اوپر نہیں اور نیچے مختلف قسم کے دفاتر ہیں  اور وہاں کے ملازم اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں اور باہر کے کسی آدمی کو وہاں نماز کی عام اجازت نہیں  ہے۔لیکن اگر کوئی باہر کا آدمی کسی کام کے سلسلے میں آ جائے اور نماز جمعہ کا ٹائم ہو جائے تو باہر والا بندہ نماز یا جمعہ پڑھ سکتا ہے۔پلازہ  کے کچھ ساتھیوں نے پوچھا ہے کہ آپ مسئلہ پوچھیں کہ یہاں جمعہ  ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور اس مسجد میں پانچ وقت کی نماز ہوتی ہے اور تراویح بھی ہوتی ہے آیا نماز جمعہ اور نماز عید کا پڑھانا یا پڑھنا اس مسجد میں ٹھیک ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ اور نماز عید پڑھنا  اور پڑھانا ٹھیک ہے کیونکہ مذکورہ مسجد میں منع  کرنا انتظامی مجبوریوں کی وجہ سے ہے  نہ کہ نماز سے روکنے کی وجہ سے ۔

تنویر الابصار مع در المختار(28,29/3) میں ہے:

( و ) السابع ( الإذن العام )… فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مقرر لأهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي نعم لو لم يغلق لكان أحسن

مجمع الانھر (246/1) میں ہے:

وما يقع في بعض القلاع من غلق أبوابه خوفا من الأعداء أو كانت له عادة قديمة عند حضور الوقت فلا بأس به لأن إذن العام مقرر لأهله ولكن لو لم يكن لكان أحسن كما في شرح عيون المذاهب

 وفي البحر والمنح خلافه لكن ما قررناه أولى لأن الإذن العام يحصل بفتح باب الجامع وعدم المنع ولا مدخل في غلق باب القلعة وفتحه ولأن غلق بابها لمنع العدو لا لمنع غيره۔

فقہی  مقالات (34/4) میں ہے:

بعض حضرات فقہاء کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذن عام  کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس آبادی میں جمعہ پڑھا جا رہا ہے اس آبادی کے لوگوں کو وہاں آنے کی پوری اجازت ہو خواہ باہر کے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ ہو چنانچہ  علامہ بحرالعلوم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

إن أغلق باب المدينة لم يجز وفيه تأمل فإنه لا ينافي الإذن العام لمن في البلد وأما من في خارج البلد فالظاهر أنهم لا يجيبون لإقامة الجمعةبل ربما يجيبون للشر والفساد(رسائل الأركان ص115)

فقہی مقالات(38/4) میں ہے:

اگر کوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے لیکن دفاعی،انتظامی و حفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہر  شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہے،بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بنا پر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تو اس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں اس آبادی کے افراد کو آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو۔مثلابڑی جیل، فوجی چھاؤنی،بڑی فیکٹریاں ایسے بڑے ایئرپورٹ جو شہر کے اندر ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہر وقت موجود ہوں لیکن ان میں داخلہ کی اجازت مخصوص قواعد کی پابند ہو تو ان تمام جگہوں پر جمعہ جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ شہر میں واقع ہو اور بڑی فیکٹری، ایئرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کو نماز کی جگہ آ کر نماز جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved