• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خطبہ میں عصا پکڑنا

استفتاء

جمعہ کے دن خطیب کا ہاتھ میں عصا پکڑنا ،کیا یہ سنت ہے یا افضل ہے اس  کے بارے میں وضاحت فرمادیں۔؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جمعہ کے دن خطیب کا ہاتھ میں عصا پکڑ کر خطبہ پڑھنا سنت ہے  تاہم یہ سنت عبادت نہیں ،بلکہ سنت عادت ہے۔

امدادالمفتین(324)میں ہے:

خطبہ کے وقت ہاتھ میں عصالینے کی مفصل تحقیق

سوال:منبر پر خطبہ پڑھنے کی حالت میں عصا لینا سنت ہے یا کہ نہیں ؟اگر عصا لے کر منبر پر خطبہ پڑھے تو عصا  داہنے ہاتھ میں لے یا بائیں ہاتھ میں؟ اور زبانی خطبہ پڑھے یا کتاب میں دیکھ کر بہر نوع کیا عصابائیں ہاتھ میں ہی لینا چاہیے؟ کئی ایک کتب فقہیہ میں تلاش کیا، عصا کا بائیں ہاتھ میں لینا صراحت سے نہیں ملتا البتہ داہنے ہاتھ میں لینے کی تائید ’’وماتلک بیمینک یا موسیٰ قال هی عصای الایة‘‘ سے ہوتی ہے ۔بہشتی گوہر میں زیر عنوان جمعہ کے خطبہ  کے مسائل کی صراحت ہے (حصہ دس) خطبہ منبر پر پڑھنا اگر منبر نہ ہو تو کسی لاٹھی وغیرہ پر سہارا دے کر کھڑا ہو نااور منبر کے ہوتے ہوئے کسی لاٹھی وغیرہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا الی آخرماقال منقول نہیں ۔ پھر زیر عنوان نبی ﷺ کا خطبہ جمعہ کے دن مصرح ہے جب تک منبر نہ بناتھا کسی لاٹھی یا کمان سے ہاتھ کو سہارا دے لیتے تھے اور بعد ایک سطر کے )بعد منبر بن جانے کےپھر کسی لاٹھی وغیرہ سے سہارا دینا منقول نہیں مگر تتمہ ثانیہ امدادالفتاویٰ مجتبائی دھلی ص۱۸۵ میں جو سوال و جواب ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا تھانویؒ نے سنت عصا کو بحوالہ در مختار قبول کرلیا ہے اور عبارت بہشتی گوہر کو مرجوح مان لیا ہے،چنانچہ عبارت ردالمحتار یہ ہے:

قوله وفي الخلاصة استشکله في الحلية بانه في رواية ابي داؤد انه صلي الله عليه وسلم قام اي في الخطبة متوکئا على عصاءاو قوس اھ . ونقل القهستاني عن عبدالمحيط ان اخذ العصاءسنة کالقيام اھ (رد المحتار مصري ص:1/877)

اوربحرالرائق (2/ 160)میں یہ ہے :

وفي المضمرات معزيا إلى روضة العلماء الحكمة في أن الخطيب يتقلد سيفا ما قد سمعت الفقيه أبا الحسن الرستغفني يقول كل بلدة فتحت عنوة بالسيف يخطب الخطيب على منبرها متقلدا بالسيف يريهم أنها فتحت بالسيف الي آخر نقله وهذا مفيد لكونه يتقلد بالسيف لا أنه يمسكه بيده كما هو المتعارف مع أن ظاهر ما في الخلاصة كراهة ذلك فإنه قال ويكره أن يخطب متكئا على قوس أو عصا لكن قال في الحاوي القدسي إذا فرغ المؤذنون قام الإمام والسيف بيساره …. وهو صريح فيه إلا أن يفرق بين السيف وغيره

کیا ایسا تو نہیں کہ روایت ابوداؤد نبی ﷺ کا منبر بن جانے سے پہلے عصا لے کر خطبہ پڑھنے سے متعلق ہو اور عبارت ہائے فقہا ء میں جیسا کہ خلاصہ سے بحر وغیرہ نے کراہت نقل کی اور خود صاحب بہشتی گوہر نے صراحت کی کہ بعد منبر بن جانے کے پھر کسی لاٹھی وغیرہ سے سہارا دینا منقول نہیں ہے۔لفظ کراہت منبر ہونے کی حالت سے متعلق ہو؟

الجواب:      حامداًومصلّیاً:  خطیب کے لئے بوقت خطبہ عصاہاتھ میں لینے کے متعلق چند روایات منقول ہیں جن میں سے قابل اعتماد تو صرف ابوداؤد کی روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں’’ فقام متوکا علی عصاء اوقوس ‘‘اگرچہ اختلاف اس کی اسناد میں بھی ہے ۔اس کے سوا مجمع الزوائد میں’’ باب علی اي شيئ یتکئ الخطیب‘‘ میں ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے جس میں’’ کان يخطب بمخصرة برواية الطبراني في الکبير‘‘وارد ہے مگر اس کی  اسناد میں ابن لہیعہ ہیں اس کی وجہ سے ضعیف ہے اور ایک حدیث حضرت ابن عباس ؓ سےان الفاظ کےساتھ منقول ہے ’’کان یخطبهم فی السفرمتکئا علی قوس و فیه ابوشیبه وهو ضعیف‘‘۔ اور تیسری حضرت سعد قرظؓ سے بلفظ’’کان اذا خطب فی الجمعةخطب علي عصاواسناده ضعيف (مجمع الزوائد)

الغرض یہ تینوں روایتیں جو مجمع الزوائد میں نقل کی گئی ہیں ضعیف الاسناد ہیں لیکن مجموعہ روایت سے بظن غالب اتنا ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے بوقت خطبہ کبھی کبھی قوس يا عصا  دست مبارک میں لی ہے اور صحیح مسلم کی ایک روایت باب العید ين میں ہے ’’قام متوکئا علی بلال رضي الله عنه‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات نہ عصا ہاتھ میں لی نہ قوس بلکہ حضرت بلال ؓ کے مونڈھے پر دست مبارک ٹیک لیا۔

اس کے بعد یہ امر غور طلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ فعل یعنی کبھی قوس اور کبھی عصاکبھی حضرت بلالؓ پر ٹیک  لگانا بطور عادت کے پیش آیا ہے یا بطور عبادت کے ؟اس میں حضرات فقہاء کی نظریں مختلف ہوگئیں۔بعض حضرات نےاس فعل کوعبادت قراردےکرآداب خطبہ میں داخل کردیااوربعض حضرات نے عادۃ سمجھا اور  خطبہ کے سنن یا آداب میں داخل نہیں کیا بلکہ منجملہ امور مشروعہ کے رہا۔ نیل الاوطار میں شاید اسی لئے اس کا عنوان ’’مشروعية التوکؤ علی قوس او عصاء‘‘رکھا ہے ۔(نیل الاوطار ،جلد۳۔)

 فقہاء حنفیہ میں جو مختلف روایات ہیں اس کا سبب بھی نظر کا اختلاف ہے درمختار، شامی ،بحروغیرہ میں اس کو مستحب قرار دیا ہے اور خلاصۃ الفتاویٰ اور محیط میں مکروہ لکھا ہے اور مراد اس کی غالباً یہ ہے کہ اس پر ایسا التزام و دوام کرنا جیسے سنن مؤکدہ پر کیا جاتاہے یہ مکروہ ہے اور طحاوی علی المراقی الفلاح میں خلاصہ کے قول کے بعد یہ بھی لکھا ہے’’لانه خلاف السنة محيط وناقض منه ابن امير الحاج بانه ثبت انه ﷺ کان خطيبابالمدينة متکئا علي عصاءاو قوس کما في ابي داؤد وکذا رواه البراء ابن عازب وصححه ابن السکن انتهي‘‘

 حنیفہ کا ظاہر مذہب جو عامہ متون و شروح و فتویٰ سے ظاہر ہوتا ہے یہی ہے کہ اس فعل کو منجملہ عادات قرار دیا گیاہے جو بوقت خطبہ مشروع ضرور ہیں لیکن خطبہ کے آداب و استحباب میں داخل نہیں ۔کنز ،ہدایہ ،بدائع اور عامہ معتبرات حنفیہ نے اس کو آداب خطبہ میں شمار نہیں کیا۔ کنزو ہدایہ میں تو یہ بھی احتمال ہے کہ بوجہ اختصار کے آداب کا ذکر ہی چھوڑ دیا گیا ہے بدائع الصنائع میں تومفصل طور پر سنن و آداب خطبہ ذکر کئے ہیں مگر اس میں علی القوس یا عصا کا کہیں نام نہیں۔ہمارے بزرگ جن کو ہم نے دیکھا ہے انکا معمول عموما ً بوقت خطبہ عصاہاتھ میں لینے کا نہیں تھا اور وجہ یہی ہے کہ یہ فعل سنن مقصودہ میں سے تو ہے نہیں ،محض عادات میں سے ہے جس کے ترک سے کوئی ادنیٰ کراہت خطبہ میں پیدا نہیں ہوتی۔دوسری طرف عادت عجم کی عموماً یہ ہے کہ خطبہ ہاتھ میں لے کر دیکھ کر پڑھا جاتا ہے اس صورت میں ایک ہاتھ میں خطبہ اور دوسرے ہاتھ میں عصا سنبھالنا دشواری اور تکلیف سے خالی نہیں ،اس لئے عموماً ہمارے سب بزرگوں کا عمل ترک ہی پر رہا ہے اور خود حضرت سیدی مصنف بہشتی زیورو گوہر وامدادالفتاویٰ کاآخر تک یہی عمل رہا ہے اور ترجیح الراجح میں سنیت کو قبول کرنے کا مطلب اس سے زائد نہیں کہ  اس کو تسلیم فرما لیا کہ آنحضرت ﷺ سے یہ فعل منقول ہے، اس لئے فی الجملہ سنت کہا جاسکتا ہے اگرچہ وہ سنن عادیہ میں سے یعنی بطور عادت ہی کے ہو۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کے افعال عادیہ کو بھی ایک حیثیت سے سنت کہا جاتاہے۔

امدادالفتاوی (3/73)میں ہے:

سوال:خطیب کو وقت خطبہ عصایا لکڑی ہاتھ میں لینا سنت ہے یامستحب؟ (۲)  نیز داہنے ہاتھ میں لیوے یا بائیں میں؟

 اگرداہنے ہاتھ میں عصا لیوے اور بائیں میں خطبہ توخلاف ادب تو نہیں ؟(۳) آں رسول مقبول ﷺ کااتکاء علی العصاء  کبر سنی یا ضعف پر محمول ہے یا سنت مستمرہ؟

الجواب : (۱)عادت نہ کرے ضرورت میں مضائقہ نہیں ۔

 وهووجه الجمع بين حديث أبي داؤد فقام ﷺ متوکئاً علي عصاء أوقوس  وبين قول الفقهاء يکره أن يتکئ علي قوس أوعصا۔

 (۲) ظاہراً کچھ حرج نہیں ۔ (۳)  استمرار کا کوئی صیغہ نظر سے نہیں گزرا۔

کفایت المفتی (3/261)میں ہے:

سوال :   ہمارے  شہر جام نگر  اور تمام علاقہ کاٹھیاواڑ میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے ہوئے  ایک عصا نہایت مزین لے کر  کھڑا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے اور بغیر عصا خطبہ پڑھنے کو خلاف سنت بتایا جاتا ہے اور تارک کو ملامت اور  طعن کیا جاتا ہے اور ثبوت زید یہ  دیتا ہے کہ شامی میں اور حدیث ابوداؤد میں ایسا کرنا سنت لکھا ہے عمرو جو تارک ہے  کہتا ہے کہ حضور ﷺ نے اس وقت تک عصا لے کر خطبہ پڑھا ہے جب تک منبر نہیں بنا تھا بعد میں ایسا کرنا  منقول نہیں  اور عالمگیری میں خلاصہ اور محیط کے حوالہ سے قوس پر یا عصا پر  سہارا  لگاکر خطبہ پڑھنا  مکروہ لکھا ہے اس لئے ضروری ہے کہ علمائے کرام ساتھ دلیل کے ہم کو اس کا فیصلہ دیں کہ مفتی بہ حنفیہ کے نزدیک کیا قرار پایا ہے اور ابوداؤد اور شامی میں سنت ہونے کا جواب کیا ہے ؟  بینوا توجروا

 جواب:عصا ہاتھ  میں لیکر خطبہ پڑھنا ثابت تو ہے لیکن بغیر عصا کے خطبہ پڑھنا اس سے زیادہ ثابت ہے پس حکم یہ ہے کہ عصا ہاتھ میں لینا بھی جائز ہے اور نہ لینا بہتر ہے  اور حنفیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے پس اس کو ضروری سمجھنا اور نہ لینے والے کو طعن تشنیع کرنا درست نہیں اسی  طرح لینے والے کو بھی ملامت کرنا درست نہیں۔  فقط 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved