• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدت میں نکاح کا حکم

استفتاء

ایک عورت نے مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدت میں نکاح کرلیا اور اولاد بھی ہوئی شوہر کو عدت کا نہیں بتایا اور نہ ہی شوہر کو پتہ تھا۔ اس بارے میں  رہنمائی کریں کہ ان کو اکٹھا رہنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱) سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟ (۲) عدت سے طلاق کی عدت مراد ہے یا وفات کی؟ (۳) اگر طلاق کی عدت مراد ہے تو طلاق کب ہوئی اور کیسے ہوئی؟ (۴) عدت نہ گزرنے کاکیسے پتہ چلا؟

جواب وضاحت: (۱) سائل عالم دین ہیں کسی نے ان سے مسئلہ پوچھا ہے (۲) طلاق کی عدت مراد ہے (۳) مذکورہ عورت کا کہیں نکاح ہوا اور رخصتی نہیں ہوئی تھی جبکہ خلوت صحیحہ پائی گئی تھی تو شوہر نے تین طلاقیں دے دی تھیں تو اس عورت نے عدت ہی میں تین طلاقوں کے تقریبا ڈیڑھ یا دو ماہ کے بعد نکاح کرلیا اور (۴) اس دوسری شادی کے چند سال بعد جب اولاد بھی ہوگئی تو پھر بیوی کو  مسئلہ معلوم ہوا کہ طلاق کے بعد نئے نکاح کے لیے تین ماہواریاں عدت گزارنا ضروری ہوتا  ہےمگر  مذکورہ عورت نے تو تین ماہواریوں سے پہلے ہی آگے نکاح کرلیا تھا۔

(بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ بیان کی تصدیق کی۔ رابطہ کنندہ: صہیب ظفر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدت کے اندر کیا گیا نکاح فاسد تھا اور نکاح فاسد سے بیوی شوہر پر حلال نہیں ہوتی۔ لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

در مختار مع ردالمحتار (266/4) میں ہے:

”(ويجب ‌مهر ‌المثل ‌في ‌نكاح ‌فاسد) و هو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود“

”(قوله ‌كشهود) ومثله تزوج الأختين معا ونكاح الأخت في عدة الأخت ونكاح المعتدة … … … والحاصل أنه لا فرق بينهما في غير العدة، أما فيها فالفرق ثابت. وعلى هذا فيقيد قول البحر هنا ونكاح المعتدة بما إذا لم يعلم بأنها معتدة“

بدائع الصنائع (5492) میں ہے:

”(فصل) : ومنها أن ‌لا ‌تكون ‌معتدة ‌الغير لقوله تعالى: {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235] أي: ما كتب عليها من التربص … … … ويجوز لصاحب

العدة أن يتزوجها إذا لم يكن هناك مانع آخر غير العدة؛ لأن العدة حقه“

در مختار مع ردالمحتار (182/5) میں ہے:

”باب العدة … (وسبب وجوبها) عقد (النكاح المتأكد بالتسليم وما جرى مجراه) من موت أو خلوة: أي صحيحة“

قال الشامي:”(قوله: أي صحيحة) فيه نظر، فإن الذي تقدم في باب المهر أن المذهب وجوب العدة للخلوة صحيحة أو فاسدة.“

درمختارمع ردالمحتار (266/4) میں ہے:

”(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد ‌شرطا ‌من ‌شرائط ‌الصحة كشهود (بالوطئ) في القبل (لا بغيره) كالخلوة لحرمة وطئها“

”(قوله لحرمة وطئها) أي فلم يثبت بها التمكن من الوطء فهي غير صحيحة كالخلوة بالحائض فلا تقام مقام الوطء، وهذا معنى قول المشايخ: الخلوة الصحيحة في النكاح الفاسد كالخلوة الفاسدة في النكاح الصحيح، كذا في الجوهرة“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved