• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک مشت سے کم داڑھی والے کی امامت اور اس   کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کاحکم

  • فتوی نمبر: 21-346
  • تاریخ: 11 مئی 2024
  • عنوانات:

استفتاء

اگر کوئی آدمی داڑھی کٹواتا ہے سنت کے مطابق اس کی ایک مٹھی داڑھی نہیں ہے اور وہ امامت کروائے تو آیا اس کی امامت درست ہے یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ ماقبل جو نمازیں ایسے امام کی اقتدا میں پڑھی جا چکی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ آیا وہ واجب الاعادہ ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)داڑھی کٹوانے والے یا ایک مشت سے کم رکھنے والے کی امامت مکروہ ہے۔

(2) اگر ایسے امام کو ہٹانے پر قدرت نہ ہو اور اس کے علاوہ بھی جماعت کا بندوبست نہ ہو سکے تو ایسے امام کے پیچھے بلاکراہت نماز جائز ہے اور اگر اس کو ہٹانے پر قدرت ہو یا دوسری جگہ جماعت سے نماز پڑھنا ممکن ہو پھر بھی اسی امام کے پیچھے نماز پڑھی تو مکروہ ہوگی۔کراہت کے باوجود اس کو لوٹانےکی ضرورت نہیں۔

بحر الرائق (2/ 435)ميں ہے:

قوله: (وكره إمامة العبد والاعرابي والفاسق والمبتدع والاعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهة. أما الصحة فمبنية على وجود الاهلية للصلاة مع أداء الاركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والاركان. ومن السنة حديث صلوا خلف كل بر وفاجر وفي صحيح البخاري أن ابن عمر كان يصلي خلف الحجاج وكفى به فاسقا كما قاله الشافعي. وقال المصنف: إنه أفسق أهل زمانه.

کفایت المفتی (9/175)میں ہے:

داڑھی منڈانا اور اتنی کتروانا کہ ایک مشت سے کم رہ جائے مکروہ تحریمی ہے۔داڑھی منڈانے والے اور اتنی کتروانے  والے کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔

امداد الفتاوی (1/350)میں ہے:

سوال :ہماری کتب میں ہے کہ اگر فاسق یا بدعتی کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کا اعادہ ضروری ہے؛ لیکن جب

 حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بلوہ ہوا اور حضرات صحابہ نے بلوائیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو حضرت عثمانؓ سے پو چھا تو آپ نے اجازت دی اور یہ نہیں فرمایا کہ پڑھ کے پھر اعادہ کرلیا کرو؛ حالا نکہ بلوائیوں سے زیادہ اور کون فاسق اور بدعتی ہو گا، خصوصاً ایسے بلوائی جنھوں نے خلیفہ برحق امیر المومنین داماد رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم داخل عشرۂ مبشرہ پربلوی کیا ہو؟

الجواب : یہ روایت مجھ کو نہیں ملی  اگر حوالہ لکھا جاوے تو تحقیق کی جاوے؛ البتہ ’’در مختار‘‘ میں یہ قاعدہ لکھا ہے واجبات صلٰوۃمیں :”  کل صلٰوۃ أدیت مع کراھۃ التحریم تجب إعادتها” ۔ اور ’’رد المحتار‘‘ میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کرکے تصحیح کے لئے یہ تو جیہ کی ہے:”إلا أن یدعی تخصیصها بأن مرادھم بالواجب والسنة التي تعاد بتركه ماکان من ماهية الصلوٰۃ وأجزائها”۔ پس صلوٰۃ خلف الفاسق و نحوہ میں اول تو کوئی امر اجزائے صلوٰۃ میں سے مختل نہیں ہوا؛اس لیے قاعدہ وجوب اعادہ کا جاری نہ ہو گا۔ دوسرے انفراد سے ان کے ساتھ پڑھنا اولیٰ ہے اور اعادہ میں جو غالباً علی الانفراد ہو گا اولیٰ سے غیراولیٰ کی طرف آنا ہے۔” في الدر المختار: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، وفي ردالمحتار: أفاد أن الصلوٰۃ خلفهما أولی من الإفراد".

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved