- فتوی نمبر: 14-174
- تاریخ: 20 جون 2019
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
ایک شخص کے پاس دکان میں فوٹو کاپی کی مشین تھی وہ دکان بند ہو گئی اس نے ایک سکول والے سے کہا کہ یہ مشین اپنے پاس رکھ لو اس نے کہا کہ یہ مجھے بیچ دو بشرطیکہ صحیح ہو ،اس شخص نے کہا کہ ٹھیک ہے میں چیک کرادوں گا۔ اس موقع پر قیمت 8 ہزارطے ہوگئی کہ اگر صحیح ہوئی تو اتنے میں خرید لیں گے ۔پھر اس نے چیک کروائی تو پرنٹ صحیح نہیں آیا تو مشین والے نے کہا کہ اس کی صفائی ہونے والی ہے ،میں صفائی کرا دوں گا بعد میں ایک مہینے بعد وہ آیا تو مشین کی تاریں چوہا کھا گیا تھا اور مشین خراب ہو گئی تو اب ہم کیا کریں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں سکول والے کے پاس اس مشین کے رکھنے کی حیثیت امانت کی بنتی ہے اور امانت جس کے پاس رکھو آئی گئی ہو اس کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوجائے تو اس کی ذمہ داری اس شخص پر نہیں آتی لہذا مذکورہ صورت میں یہ مشین والے کا نقصان شمار ہوگا۔
واضح رہے کہ مذکورہ صورت مقبوض علی سوم الشراء کی نہیں کیونکہ مقبوض علی سوم الشراء میں خریدار بغیر کسی شرط کے خریدنے پر رضامند ہو چکا ہوتا ہے البتہ ابھی تک اس نے حتمی ایجاب و قبول نہیں کیا ہوتا جبکہ مذکورہ صورت میں خریدار اس مشین کے صحیح ہونے کی شرط کے ساتھ خریدنے پر تیار تھا مطلقاخریدنے پر تیار نہیں تھا اس لئے مذکورہ صورت میں سکول والے کا قبضہ مشین پر قبضہ امانت تھا۔
فی الهندیة:244/4
اذا اصابه نجس او قرض فار او حرق نار فلاضمان علیه کذا فی الحاوی۔
فی الشامیة:114/7
قال فی القنیة عن ابی حنیفة قال له هذا الثوب لک بعشرة دراهم فقال هاته انظر فیه او قال حتی اریه غیر ی فاخذه علی هذا وضاع لا شیئ علیه ولو قال هاته فان رضیته اخذته فضاع فهو علی ذلک الثمن ۔
وایضا فیه
ثم قال فی القنیة :اخذمنه ثوبا وقال ۔۔۔۔وان قال ان رضیته اخذته بعشرةفعلیه قیمته۔۔۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved