• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ گھر میں کمائی لانے اور حصوں کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں :کہ ایک آدمی کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ایک بیٹا ڈاکٹر اور شادی شدہ ہے والد کے ساتھ ہی رہتا ہے والد صاحب زمیندارہ کرتے ہیں ۔دوسرے بیٹے کو والد صاحب نے پیسے اکٹھے کر کے سعودی عرب کام کے لیے بھیج دیا وہ بیٹا کام کرتا رہا اور والد صاحب کو پیسے بھیجتا رہا۔اب ایک بیٹا بغیر شادی کے ہے باقی سب شادی شدہ ہیں ۔ شادیوں کا اکثر خرچہ سعودیہ والے نے کیا جبکہ سب بیٹے والد کے ساتھ ہیں کھانا پینا بھی اکٹھا ہے ۔سعودیہ والے بیٹے نے دوکانیں اور پلاٹ وغیرہ خریدے ہیں جس کی دوقسمیں ہیں:ایک وہ ہیں جو باپ اور بھائیوں کی معاونت (یعنی جائیداد تلاش کرنا اور معاملات طے کرنا جبکہ پیسے صرف سعودیہ والے کے تھے )سے خرید ے ہیںاور دوسرے وہ ہیںجن کے سب معاملات اور پیسے صرف سعودیہ والے نے کیے ہیں۔باپ کہتا ہے کہ یہ ساری میری جائیداد مشترکہ ہے جبکہ بیٹا کہتا ہے کہ یہ جائیداد میری ہے ۔اب بھی سب بیٹے والدین کے ساتھ رہتے ہیں ۔سعودیہ والے کے بچے بھی والدین کے پاس ہوتے تھے اور اس کو الگ بھی نہیں کیا لہذا بتلائیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے :کیا جو بیٹا ڈاکٹر ہے اس کا خرچہ مشترکہ ہے ؟

جواب وضاحت: جی مشترکہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے عرف اور معاشرے میں جب بیٹے والدین کے ساتھ رہ رہے ہوں یا والدین کے ساتھ نہ ہوں بلکہ آپس میں چند بھائی اکٹھے رہ رہے ہوں تو اس دوران جو کچھ بیٹے یا بھائی کمائیں وہ کمانے والوں کا مشترک مال سمجھا جاتا ہے خواہ کسی نے کچھ زیاد ہ کمایا ہو یا کم ۔لہذا مذکورہ صورت میں یہ سب جائیداد باپ اور بھائیوں کے درمیان مشترک ہے نہ صرف والد کی ہے اور نہ صرف سعودیہ والے بیٹے کی ۔

حاشية ابن عابدين (4/ 325)

مطلب اجتمعا في دار واحدة واکتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية

 تنبيه: يؤخذ من هذا ما أفتي به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ کل منهما يکتسب علي حدة ويجمعان کسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز

 فأجاب بأنه بينهما سوية وکذا لو اجتمع إخوة يعملون في ترکة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي ا هـ

امداد الفتاوی(515/3) میں ہے:

سوال:        ایک استفتاء آیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جائے۔شامی فاروقی(349)فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:

تنبيه: يؤخذ من هذا ما أفتي به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ کل منهما يکتسب علي حدة ويجمعان کسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولاالتمييز فأجاب بأنه بينهما سوية الخ

چند سطروں کے بعد لکھا ہے:

فقيل هي للزوج وتکون المرأة معينة له الااذا کان لها کسبا علي حدة فهو لها وقيل بينهما نصفان۔(والسلام)

الجواب:       میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں۔ وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفا  کسب  ہوتا ہی نہیں۔وہاں تو اس کو معین سمجھا جائے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لیے کسب کرتے ہیں جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved