• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں میراث تقسیم کرنے کی صورتیں

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1-کیا والد صاحب اپنی موجودگی میں اپنی کل جائداد تقسیم کر سکتے ہیں یا نہیں؟

2- مندرجہ ذیل جائیداد کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟

ملکیت 2عدد مکان، ایک کرائے پر دیا ہوا ہے، اس کا کرایہ خود استعمال کر رہے ہیں۔ دوسرے مکان میں دو چھوٹے شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ مقیم ہیں ،

لواحقین میں چار بیٹے شادی شدہ ،دو بیٹیاں شادی شدہ ،ایک بیٹی کا انتقال ہوچکا  ہےاور اس کی ایک بیٹی موجود ہے یعنی نواسی کو نانا کی جائیداد میں حصہ ملے گا یا نہیں؟ اور کتنا حصہ ملے گا ؟جب بیٹی کا انتقال ہوا تو والدین حیات تھے اور کیا جس بیٹے نے خدمت کی ہے اس کو زیادہ حصہ دے سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-والد صاحب اپنی موجودگی میں اپنی کل جائیداد تقسیم کرسکتے ہیں۔

2-مذکورہ جائیداد کو اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں :

۱۔لڑکے اور لڑکیوں کو برابر حصہ دیں یہ افضل ہے ۔

۲۔لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیں اور لڑکوں کو دودو حصے دیں یہ صورت بھی جائز ہے ،جب تک نانا زندہ ہے اس وقت تک جائیداد میں شرعا کسی کاکوئی حصہ نہیں بنتا لہذا اگر نانا چاہے تو اپنی مرحومہ بیٹی کا حصہ اپنی نواسی کو دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔نیز جس بیٹے نے زیادہ خدمت کی ہے اس کو دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جاسکتا ہے۔

فی الشامی8/583

ولاباس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبة لانها عمل القلب وکذا فی العطایا ان لم یقصد به الاضرار وان قصده یسوی بینهم یعطی البنت کالابن عندالثانی وعلیه الفتوی ولو وهب کل المال للولد جازواثم ۔

(قوله:وعلیه الفتوی)ای علی قول ابی یوسف من ان التنصیف بین الذکر والانثی افضل من التثلیث الذی هو قول محمد

وفی خلاصة الفتاوی:4/400

وفی الفتاوی رجل له ابن وبنت اراد ان یهب لهما شیأ فالافضل ان یجعل للذکر مثل حظ الانثین عند محمد وعندابی یوسف بینهما سواء هو المختار لورود الآ ثار ولو وهب جمیع ماله لابنه جاز فی القضاء وهو آثم نص عن محمد هکذا فی العیون ولو اعطی بعض ولده شیأ دون البعض لزیادة رشده لابأس به وان کانا سواء لاینبغی ان یفضل ۔

البنایہ شرح ہدایہ(7/286)

یتصرف المالک فی ملکه کیف شاء۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved