- فتوی نمبر: 24-247
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
گزارش یہ ہے کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ،میرے والد نے تین شادیاں کی تھیں، پہلی شادی میری والدہ سے کی تھی ،میری والدہ کا انتقال ہوگیا تھا پھر دوسری شادی کی اوردوسری بیوی کو طلاق دے دی ،ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، اب تیسری شادی کی ہے اور ان میں سے بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔ہم تین بھائی ہیں اور ایک بہن ہے جوکہ پہلی والدہ سے ہیں اور حقیقی بہن بھائی ہیں۔سوال یہ ہے کہ میرے والد نے دو مرلے کا ایک مکان محمد حنیف خان ولد رحمت خان اور حافظ سید علی حسین ولد اخلاق احمد سے اپنے اور اپنی بیوی کے نام بحصہ برابری خریدا اورجب میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ نے والدہ کا نام بیع نامہ میں کیوں شامل کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس لئے کہ چلو وہ خوش ہوجائے گی ۔اس کے علاوہ ہم میں سے کسی بہن بھائی سےوالد نے کچھ ذکر نہیں کیا۔
بیوی کاحلفیہ بیان:’’میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر کہتی ہوں کہ میرے شوہر نے نصف مکان زبان سے بھی میرے نام کیا ہے‘‘۔
وضاحت مطلوب:آپ کے شوہر کے الفاظ کیا تھے؟
جواب وضاحت:آدھا مکان آپ کے نام کرتا ہوں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کی تیسری ماں آدھے گھر کی مالک ہے اور باقی آدھا گھر آپ کے والد کی ملکیت میں ہے جو تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق شوہر نے بیوی سے کہا تھا کہ ’’آدھا مکان آپ کے نام کرتا ہوں ‘‘ اور یہ الفاظ ہبہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں پھر چونکہ شوہر نے دو مرلے کے گھرمیں سے آدھا گھر یعنی ایک مرلہ ہبہ کیا ہے اور یہ ایسے مشاع کا ہبہ ہے جو تقسیم نہیں ہوسکتا ،لہٰذا گھر کو خالی کرکے اس پر قبضہ دینا ضروری نہیں تھا بلکہ بیوی کا اس میں رہائش پذیر ہونا ہی قبضے کے لیے کافی تھا ۔اس لیے مذکورہ صورت میں ہبہ مکمل ہوجانے کی وجہ سے بیوی آدھے گھر کی مالک بن چکی ہے۔
ردالحتار(8/570)میں ہے:
قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة، ولو قال: أغرس باسم ابني، فالأمر متردد، وهو إلى الصحة أقرب اهـ.
وفي المنح عن الخانية بعد هذا قال: جعلته لابني فلان، يكون هبة؛ لأن الجعل عبارة عن التمليك، وإن قال: أغرس باسم ابني، لا يكون هبة، وإن قال: جعلته باسم ابني، يكون هبة؛ لأن الناس يريدون به التمليك والهبة اهـ.
وفيه مخالفة لما في الخلاصة كما لا يخفى اهـ.
قال الرملي: أقول: ما في الخانية أقرب لعرف الناس تأمل اهـ.
شرح المجلۃ(3/379)میں ہے:
اما ما لا يقبلها[القسمة[بأن كان لا ينتفع به بعد القسمة انتفاعا من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة،كبيت صغير او حمام،فتصح هبته وتتم بقبضه شائعاً بأن يقبض الكل،لان قبض كل شيء بحسبه،وهذا لا يكون قبضه الا كذلك،فاكتفى بذلك وتمت به الهبة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved