- فتوی نمبر: 28-137
- تاریخ: 28 جون 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میں ایک بیوہ عورت ہوں میرے والد صاحب نے سب بہن بھائیوں کو شرعی حصہ دے دیا لیکن مجھے نہ پیسے دیے نہ ہی میرے کہنے کے باوجود میرے خاوند کے نام پلاٹ کیا۔مجھے والد صاحب سے زبانی طور پر جو5 مرلہ پلاٹ ملا تھا اس میں سے میں نے 2.5مرلہ پلاٹ اپنے دوسرے بیٹے کی بیوی جو میری بھتیجی بھی ہے کو زبانی یہ کہہ کر کہ تمہارے نام کرتی ہوں ہبہ کر دیا جبکہ باقی آدھا پلاٹ میرے بھائی کے نام ہے پلاٹ کی فائل بھی بھائی اور بھتیجی کے پاس ہے اور بھتیجی پلاٹ اپنے نام کرواچکی ہے۔اس معاملہ کے دوران میرے شوہر حیات تھے اور ہمارا اپنا کوئی گھر بھی نہ تھا اور ہم بیٹوں سمیت کرایہ کے مکان میں رہ رہے تھے ،میری ایک دوکان تھی جس سے گھر کے اخراجات باآسانی پورے ہو رہے تھے۔تقریبا ڈھائی سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوا دوران عدت والد صاحب کے کہنے پر سامان سمیت دوکان دوسرے بیٹے کو دے دی۔ہم اب بھی بال بچوں سمیت کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہیں جس بہو (بھتیجی)کو میں نے نصف پلاٹ ہبہ کیا تھا اس کے شوہر(میرے بیٹے)کا کہنا ہے کہ وہ ہبہ کردہ پلاٹ اور دوکان اسی کی ہے مجھے شرعی حصہ میں آدھا پلاٹ دیں اور بدتمیزی ونافرمانی بھی کرتا ہے۔باقی دو بیٹوں کی معمولی پرائیویٹ ملازمت اور مہنگائی کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں دوبارہ نئے سرے سے بچوں اور خواتین کے گارمنٹس کا کام شروع کیا ہے تاکہ گھر کے نظام کو بہتر طریقے سے چلایا جاسکے اور مہنگائی کی وجہ سے اپنا گھر تعمیر کرنا چاہتی ہوں تاکہ کرایہ داری سے جان چھوٹ جائےلہذا سوال یہ ہے کہ:
1.کیا بہو (بھتیجی)کو دیئے ہوئے پلاٹ کو واپس لیکر اپنے اور اپنی اولاد کے لیے گھر کی تعمیر کروا سکتی ہوں؟
2.کیا والد صاحب سے ملے پلاٹ کو اپنے اور بیٹوں کے درمیان تقسیم کر سکتی ہوں؟
3.کیا وہ پلا ٹ صرف اپنے نام یا اپنی ملکیت میں رکھ سکتی ہوں؟
تنقیح:جو حصہ میرے بھائی کے نام ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ آج بھی مانتے ہیں کہ یہ تمہارا پلاٹ ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1,2,3. جو حصہ ابھی آپ کی ملکیت ہے یعنی پلاٹ کے 2.5 مرلے ان کے بارے میں آپ کو اختیار ہے جو چاہیں کریں بیٹوں کو دیں یا اپنے پاس رکھیں البتہ جو حصہ بھتیجی کو دے دیا وہ نہ واپس لے سکتی ہیں نہ اس پر تصرف کرسکتی ہیں کیونکہ :1. جب آپ نے بھتیجی سے کہا’’یہ پلاٹ تمہارے نام کرتی ہوں‘‘ اس کے بعد بھتیجی نےپلاٹ اپنے نام کرواکراس کی فائل اپنے پاس رکھ لی توہبہ صحیح ہو گیااورپلاٹ بھتیجی کی ملکیت میں آگیا آپ کا اس سے کوئی تعلق نہ رہا۔ 2.بھتیجی ایسے قریبی رشتہ داروں(ذی رحم محرم)میں سے ہے جنہیں ہبہ کرنے کے بعد واپسی کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر(2/ 353)میں ہے:
قال: (وتصح) الهبة (بإيجاب وقبول) على ما في الكافي وغيره؛ لأنها عقد وقيام العقد بالإيجاب والقبول……..(وتتم) الهبة (بالقبض الكامل) …….
حاشیہ ابن عابدين(5/ 689)میں ہے:
وفي المتن من الخانية بعد هذا قال: جعلته لابني فلان، يكون هبة؛ لأن الجعل عبارة عن التمليك، وإن قال: أغرس باسم ابني، لا يكون هبة، وإن قال: جعلته باسم ابني، يكون هبة؛ لأن الناس يريدون به التمليك والهبة اهـ.وفيه مخالفة لما في الخلاصة كما لا يخفى اهـ.قال الرملي: أقول: ما في الخانية أقرب لعرف الناس تأمل اهـ
فتاوىٰ عالمگیری ط حقانیہ(4/ 385)میں ہے:
ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ط رشیدیہ(7/ 500) میں ہے:
(قوله والقاف القرابة فلو وهب لذي رحم محرم منه لا يرجع) لحديث الحاكم مرفوعا «إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها»
الدر المختارط رشیدیہ(586/5)
(صح الرجوع فيها بعد القبض) أما قبله فلم تتم الهبة (مع انتفاع مانعه) الآتي (وإن كره) الرجوع (تحريما) وقيل: تنزيها نهاية……….(والقاف القرابة، فلو وهب لذي رحم محرم منه) نسبا (ولو ذميا أو مستأمنا لا يرجع)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved