- فتوی نمبر: 27-145
- تاریخ: 02 ستمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہم آسٹریلیا میں رہتے ہیں ،وہاں بجلی / گیس کے ماہانہ بلوں کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ہمیں جو بل دیا جاتا ہے اس پر ہماری خرچ کی ہوئی بجلی کی مقدار ، اس کی اصل قیمت اور ادائیگی کی مقررہ تاریخ درج ہوتی ہے،اور جمع کروانے کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ بل اکاؤنٹ کے ذریعے ہی ادا کیا جاتاہےبراہ راست ادائیگی نہیں کرسکتے ،اب اگر ہم مقررہ تاریخ سے پہلے اپنے اکاؤنٹ میں پیسے ڈال دیں تاکہ مقررہ تاریخ آنے پر کمپنی ہمارے اکاؤنٹ سے بل کی رقم کاٹ سکے تو اس پر کمپنی ہمیں ڈسکاؤنٹ دیتی ہے ۔کیا ہمارے لیے یہ ڈسکاؤنٹ لینا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں یہ ڈسکاؤنٹ لینا جائز ہے۔
توجیہ:مذکور ہ صورت برقت ادائیگی پر ڈسکاؤنٹ کی ہے،وقت سے پہلے ادائیگی پر ڈسکاؤنٹ کی نہیں ۔اس لیے یہ ضع وتعجل کی مثال نہیں ،کیونکہ ضع وتعجل کی صورت تب بنتی ،جب صرف مقررہ تاریخ سے پہلے ادائیگی پر ڈسکاؤنٹ ملتا اور مقررہ تاریخ پر ادائیگی پر نہ ملتا ،لیکن اگر مقررہ تاریخ پر ادائیگی کی صورت میں بھی ڈسکاؤنٹ ملتا ہو تو یہ ضع وتعجل کی صورت نہیں بنتی۔
الدرالمختار(12/318)میں ہے:
ولا يصح اي الصلح(ناقل) عن دراهم على دنانير موجلة ) لعدم الجنس فكان صرفا فلم يجز نسئية (او عن الف مؤجل على نصفه حالا) الا في صلح المولى مكاتبة فيجوز زيلعى (او عن الف سود على نصفه بيضا) والاصل ان الاحسان ان وجد من الدائن فاسقاط وان منهما فمعاوضة
تكملۃ حاشيہ ابن عابدین میں ہے:
«قوله: (أو عن ألف مؤجل على نصفه حالا) لان المعجل غير مستحق بعقد المداينة، إذ المستحق به هو المؤجل والمعجل خير منه، فقد وقع الصلح على ما لم يكن مستحقا بعقد المداينة فصار معاوضة والاجل كان حق المديون وقد تركه بإزاء ما حطه عنه من الدين فكان اعتياضا عن الاجل وهو حرام، ألا يرى أن ربا النسيئة حرم لشبهة مبادلة المال بالاجل فلان يحرم حقيقة أولى.انتهى.درر
امداد الاحکام (3/499)میں ہے:
بشرط تعجیل دائن کا مدیون سے دین میں کمی کرنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ عمر نے بکر کو کچھ مال فروخت کیا اور کہہ دیا کہ بیس روز کے عرصہ میں رقم ادا کر دینا لیکن عمر پندرہ روز میں آیا اور بکر سے روپیہ کا تقاضا کیا اورکہا کہ میں خوشی سے ایک روپیہ یا دو روپیہ یا کچھ زائد چھوڑتا ہوں ہو اگر تم مجھ کو اس وقت روپیہ دے دو تو یہ رقم ایک روپیہ یا دو روپیہ یا زائد جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: صورت مسئولہ میں مدیون کو یہ رقم ایک روپیہ دو روپیہ جو قرض خواہ نے چھوڑے ہیں حلال نہیں کیونکہ اس نے پیشگی لینے کے واسطے چھوڑی ہے اور مدیون بھی اس وجہ سے رقم چھوڑ رہا ہے کہ اس سے وقت سے پہلے مطالبہ کیا گیا ہے تو یہ رقم اجل کا عوض ہوئی اور اجل کا معاوضہ حرام ہے۔
الهداية (235/4)ولو كانت له الف موجلة فصالح على خمس مائة حالة لم يجز لان المعجل خير من المؤجل وهو غير مستحق بالعقد فيكون بازاء ما حطه عنه وذلك اعتياض عن الاجل وهو حرام، قال المحشى والاصل فيه ان الاحسان متى وجد من الطرفين يكون محمولا على المعاوضة كهذه المسئلة فان الدائن اسقط من حقه خمس مائة والمديون اسقط حقه من الاجل فيكون معاوضة بخلاف ما اذا صالح من الف على خمس مائة فانه يكون محمولا على اسقاط بعض الحق دون المعاوضة لان الاحسان لم یوجد الا من طرف رب الدین
قلت: وقد غفلت مرة عن هذا الاصل وحملت المسئلة على مطلق الاحسان واستغفر الله العظيم
الفقہ الا سلامی وأدلتہ للزحيلی (5/ 3726)میں ہے:
قاعدة (ضع وتعجل): إن أخذ مال من المقترض مقابل تعجيل بقية القرض بالنص على ذلك في عقد القرض حرام أيضاً عند أئمة المذاهب الأربعة؛ لأن نقص ما في الذمة لتعجيل الدفع شبيه بالزيادة؛ لأن المعطي جعل للزمان مقداراً من الثمن بدلاً منه.
ومعنى القاعدة: أن يكون لشخص على آخر دين لم يحل، فيعجله قبل حلوله على أن ينقص منه. ومثل ذلك أن يعجل بعضه ويؤخر بعضه إلى أجل آخر، وأن يأخذ قبل الأجل بعضه نقداً وبعضه عرضاً. ويجوز ذلك كله بعد الأجل باتفاق، ويجوز أن يعطيه في دينه المؤجل عرضاً قبل الأجل وإن كانت قيمته أقل من دينه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved