• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عام ملازمین سے اضافی ٹائم میں کام کروانا

استفتاء

بعض اوقات کام کے لوڈ کی وجہ سے بعض ملازمین سے ڈیوٹی ٹائم سے اضافی وقت میں بھی کام کروایا جاتا ہے جس کے عوض ان کو اوور ٹائم کے قانون کے مطابق معاوضہ دیا جاتا ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ملازم کی ایک مہینہ کی تنخواہ کو 26 دنوں پر تقسیم کیا جاتا ہے جس سے ایک دن کی تنخواہ معلوم ہو جاتی ہے پھر اسے آٹھ گھنٹوں پر تقسیم کیا جاتا ہے جس سے ایک گھنٹہ کی تنخواہ معلوم ہو جاتی ہے۔ ملازم نے جتنے گھنٹے اوور ٹائم لگائے اسے اتنا دوگنا معاوضہ دیا جاتا ہے مثلاً اگر اضافی ایک گھنٹہ کام کیا تو دوگھنٹے کا معاوضہ دیا جاتاہے۔

اگر کوئی ملازم اپنی مرضی سے ڈیوٹی ٹائم کے بعدبیٹھا رہے اور کام کرتارہے جبکہ کمپنی انتظامیہ کی طرف سے اسے اضافی ٹائم میں کام کرنے کا مطالبہ نہ کیا گیاہو تو ایسی صورت میں اسے اوور ٹائم نہیں دیا جاتا۔

اسی طرح پی کمپنی کے پروڈکشن ایریا میں لیبر سے اتوار کے دن بھی کام لیا جاتاہے اور اس کا انہیں قانون کے مطابق دوگنا معاوضہ دیا جاتاہے۔

اورٹائم کے بارے میں مذکورہ پالیسی کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اوور ٹائم کے سلسلے میں پی کمپنی کا مذکورہ طریقہ شرعاً درست ہے۔

(۱)         شرح المحله: (۱/۵۵۹، المادة: ۱۰۰۶)

’’لايعتبرالبيع الذي وقع بالإکراه المعتبر ولا الشراء والإيجار… ملجئًا کان الإکراه أوغير ملجئ…‘‘

(۲)         مؤطا امام مالک (۴/۱۰۱۹۔ ط: الاولي۔ ناشر: مؤسسة زايد بن سلطان… ابوظهبي۔ الامارات)

وأن الأجير لايستأجر إلا بشيئٍ مسمي، ممالاتجوز الاجاره الابذلک، و انما الاجارة بيع من البيوع۔

(۳) صحيح مسلم (باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية، حديث ۴۷۶۳) طبع دارالسلام

عن ابن عمر عن النبي ﷺ انه قال: ’’علي المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب وکره الإ أن يومربمعصية فإن أمر بمعصية فلاسمع ولا طاعة۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved