- فتوی نمبر: 27-102
- تاریخ: 09 اکتوبر 2022
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان
استفتاء
کچھ لوگ حضور اکرم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے ہیں اور ساری امت کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں اور کچھ اپنے مرحومین کی طرف سے قربانی کرتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جائز ہے اور سنت سے ثابت بھی ہے۔
سنن ابو داؤد (رقم الحدیث:2790) میں ہے:
عن علي قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه أبدا.
ترجمہ:حضرت علی ؓ کہتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں تو میں ہمیشہ ہی (ہر سال) آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔
سنن ابن ماجہ (رقم الحدیث:3122) میں ہے:
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان «إذا أراد أن يضحي، اشترى كبشين عظيمين، سمينين، أقرنين، أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله، بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد، وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم»
ترجمہ:حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ جب آپ ﷺ قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے ، موٹے تازے ، سینگوں والے ،چت کبرے ، خصی کیے ہوئے مینڈھے خریدتے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی جانب سے ذبح فرماتے جو توحید ورسالت کی گواہی دینے والے ہیں اور دوسرا محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ کی جانب سے ذبح کرتے۔
حاشیۃ سندی علی سنن ابن ماجہ(271/2) میں ہے:
قوله:(عن محمد وآل محمد) استدل به من يقول الشاة الواحدة تكفي لأهل البيت في أداء السنة ومن لا يقول به يحمل الحديث على الاشتراك في الثواب كيف وقد ضحى عن تمام الأمة بالشاة الواحدة وهي لا تكفي عن أهل البيوت المتعددة بالاتفاق.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved